اجی سنو، کھٹکا بولے تو کیا ؟
کھٹکا نہیں معلوم، تمہارے کو ؟ اچھا اچھا یہ میرا حیدرآبادی بھائی پوچھا شاید ؟
کھٹکا کہاں ہے کھٹکا کہاں ہے پو چھ رہے تھے میں بولی ٹھہرو تمہارے بھائی کو بھیج رہی ہوں۔کھٹکا بولے تو کیا بولو نہ؟
میں جواب گول کرکے اس کے کمرے میں گھس گیا، مجھے دیکھتے ہی وہ بولا، ارے کھٹکا کہاں ہے یارو یہاں ؟ میں نے ہاتھ بڑھا کر سوئچ آن کر دیا، روشن کمرہ اور بھی روشن ہو گیا۔
حیدرآبادی بھائی نے سوئچ بورڈ کو غور سے دیکھا، اور بولا ’’ اچھا یہ دبانے والے کھٹکے ہیں میں اوپر نیچے کرنے والے کھٹکے ڈھونڈھ رہا تھا۔ یہ دبانے والے کھٹکے تمہارے بنگلور میں بالکل نئے آئے ہیں شاید،نیا نیا دکھ رہا ہے ۔اس سے پہلے کہ میں کچھ بولتا وہ بے تکان بولتا چلا گیا، ہمارے حیدرآباد میں یہ دبانے والے کھٹکے تو زمانے سے ہیں تمہارے کو وہ نواب ظاہر دار بیگ یاد ہیں نہ ؟
میں نے پوچھا ظاہردار بیگ ؟ ظاہردار بیگ کون ؟
اری نواب ظاہردار بیگ کو نہیں پہچانتے ؟ ارے وہ ریڈہلز پہ ان کی کوٹھی ہے وہ ظاہرداربیگ۔
ریڈ ہلز ؟ میں نے حیرت سے پوچھا یہہ ریڈ ہلز کہاں ہے حیدرآباد میں ؟
اری ریڈ ہلزنئیں مالوم؟ ارے وہ نیلوفر دواخانے کے پاس ہے نئیں محلہ وہ اچ ریڈہلز ہے۔
میں حیرت سے بولانیلوفر اسپتال تو لال ٹیکری میں اوہ اوہ لال ٹیکری کاانگریزی ترجمہ ہے ریڈہلز اور یہہ نیلوفر دواخانہ ؟ دواخانہ ہے کیا؟ نیلوفر اسپتال تو بہت بڑا اسپتال ہے ۔ دوا خانہ بولے تو مجھےڈاکٹر زیدی کا دواخانہ یاد آگیا، یاد ہے کتا چھوٹا دواخانہ تھا، بیچ میں ٹاٹ کا پردہ ڈال دئیے تھے اور ایک حصے کو زنان خانہ دوسرے حصے کو مردانہ بنایا تھا جب بھی میرے کو یا تمارے کو بخار آتا تو ایک شیشی دے کے ڈاکٹر زیدی کے دواخانے کو بھیجتے ارو ہم دیکھتے اگر زنانے حصے میں بھیڑ کم ہوتی تو ہم وہاں جاتے اور ڈاکٹر صاب ہمارے کان کھینچتے کیو ں زنانی طرف سے کیوں آئے تم لوگ؟ بچے ہیں کدھر سے بھی آسکتے تم کہتے اور ڈاکٹر صاحب پوچھتے کسے بخار ہے؟ ہم ایک ساتھ بولتے دونوں کو، ڈاکٹر صاحب نبض دیکھنے کے بعد بولتے انجکشن دوں کیا تم ہاتھ آگے کرتے تو ڈاکٹر صاحب کہتے نہیں میاں تمارےکو انجکشن نیئں دوا لو تم ڈاکٹر صاب کو اچانک یاد جاتا تم کو انجکشن دیتے وقت ان کی دو تین سوئیاں مڑ گئی تھیں۔ ا ورنسخہ لکھ دیتے کمپاونڈر شیشی میں گلابی رنگ کا مکسچر اور پڑی میں گولیاں دیتا شیشی پر نشان لگا ہوتا یا کمپاونڈر نشان کی پٹی چپکاتا اورتاکید کرتا دیکھو صبح یہاں تک دوپہر یہاں تک شام یہاں تک کھانے کے بعد پینا اور ایک گولی نگل لینا گولی چبائینگے تو دو دن اور بخار میں تپیں گےجب دوا پینے کہا جاتا تو وہ کڑوی دوا ہرگز نہ پیتے کسی نہ کسی بہانے دوے گرا دیتے اور دوسر ے دن جب لوٹ پوٹ کے اچھے ہوجاتے تو صرف گھر ہی میں نہیں بلکہ پورے محلہ میں ڈاکٹرزیدی کے نام کا ڈنکا بجتا کہ بھئی ڈاکٹر زیدی حاذق طبیب ہیں ان کے ہاتھ میں کتنی شفا ہے ایک ہی خوراک میں دونوں بچے اچھےہو گئے۔ ہم نے ایک دوسرے کو دیکھا اور ایک زوردار قہقہہ لگایا اور ایک ساتھ بولے اور ہم ڈاکٹر زیدی کی دوا پیتے اچ نیئں تھے۔تو دواخانہ بولے تو مجھے ڈاکٹر زیدی کا وہ چھوٹا دواخانہ یاد آتا ہے ۔ نیلوفر اسپتال کو دواخانہ نہیں اسپتال بولو، اس نے کہا لیکن ہمارے حیدرآباد کے اردو اخباراں نیلوفر دواخان اچ لکتھیں ۔
میں نے کہا حیدرآاباد کے اردو اخباراں وزیر اعلی کو چیف منسٹر اور اسپتال کو دواخانہ لکھتئیں۔
ارےتم کب کے باتاں لے کے بیٹھئیں میں بول رہا تھا نواب ظاہر دار بیگ کی حویلی کا قصہ ایک بار ان کو میرے سے کام پڑگیا
میں نے بیچ میں ٹوکتے ہوئے کہاتم سے نواب صاب کو کام پڑگیا؟
کیا سمجھے میاں تم ہم کو ،بڑے بڑے لوگاں ہماری جیب میں ہیں مالم خیر جب میںنواب ظاہردار بیگ کے حویلی کو گیا تو وہاں ایسےدبانے والے کھٹکے دیکھا تھا نواب صاب فرانس سے لائے تھے۔
میں زیر لب مسکراتا ہوا بولا تم بیٹھو میں داڑھی بنا کے غسل کرکے آتوں پھر ساتھ ناشتہ کریں گے۔
اور میں واش روم چلا گیا۔
ابھی چہرے پہ صابن لگایا تھا کہ وہ آگئی اجی ٹٹے پیسے کتوکیا؟ پیسے بھی ٹٹے ہوتے کیا؟
اسے دس بیس روپے دے دو میں نے کہا۔
ٹٹے پیسے کتو چینج کیا، میں نے کہا ہاں، اس کے منہ سے بے ساختہ ائی نکل گیا اور اس کو میں شریر نظروں سے گھورنے لگا،میری تیز شریر نظروں کی تاب نہ لاسکی اور باورچی خانے میں گھس گئی جو ایسے موقعوں پراس کی ناقابل تسخیر پناہ گاہ ہوتا۔ جانتی تھی کہ میں اس کے تعاقب میں باورچی خانے میں نہیں گھستا، میں ہی کیا کوئی بھی مرد باورچی خانے میں قدم رکھتے بھی ڈرتا ہےکہ کہیں چاول ڈھولنے یا پیچھ نتھارنے یا ایسے ہی کسی کام کرنے کا حکم نہ دیا جائے۔
داڑھی بناکر غسل کیا جیسے ہی باہر نکلا وہ سوالیہ نشان بنی کھڑی تھی میں نے مسکراتے ہوئے پوچھا اب کیا ہوا کہنے لگی تمہارے بھائی ضرورت کو کاں جانا پوچھ رئیں میں نے گھبراکر پوچھا کتی دیر ہوئی میری گھبراہٹ کو حسب معمول نظر انداز کرتے ہوئے بولی اس میں گھبرانے کی کیا بات ہے ایک بار پھر جواب گول کرکے میں اس کے کمرے گیا اس کا چہرہ متزلزل تھا مجھے دیکھتے ہی بولا ارے ضرورت کو ، میںنے اس کی بات کاٹی اور واش روم کا دروازہ کھولا کیونکہ ایک ساتھ پلے بڑے ہوئے تھے اس کو کموڈ پر بیٹھنے اور فاسیٹ سے آب دست کرنے کا (لباس پہنے پہنے ہی ) عملی طریقہ بتانا پڑا اور پھر اپنے کمرے کی راہ لی مجھے دیکھتے ہی اس نے کہا اتنا ہڑبڑا کر کئیکو گئے تب اسے بتانا پڑا کہ حیدرآبادی لوگوں کو جب واش روم جانا ہوتا ہے تو وہ ضرورت کو جا نا ہے بولتئیں اور میرے اس بھائی کو کنٹرول بالکل نہیں ہے۔وہ ایک بار پھر بے ساختہ ائی بول پڑی اور میری گرم نظروں سے بچنے باورچی خانہ میں گھس گئی۔
ڈنر کے دیر حیدرآبادی بھائی اپنی شہرت اور ڈھاک کی باتیں کرتا رہا ( یعنی بے پَر کی ہانکتا رہا ) ۔ ایسی باتیں کب ختم ہوتی ہیں لیکن بہت جلد اس کو احساس ہوا کہ سفر کے بعد خاطر خواہ آرام نہیں کرسکا، تھکن کا بہانہ کیا اور سونے چلا گیا۔
بیڈ روم پہنچتے ہی اس نے پوچھا، اجی سنو حیدرآبادی لوگاں جورو کو ’’ محل ‘‘ بولتے کیا؟ بات کو مختصر کرنے کی نیت سے میں نے کہا ہاں۔ لیکن بات طول پکڑ گئی ۔ اس نے کہا تم بولتے تھے تمہارا بھائی بہت کم پڑھا لکھا تقریباً ان پڑھ ہے لیکن دیکھو انوں ان کی بیوی کو ’’ محل ‘‘ بولے ۔میں نے پوچھا کب اور کئیکو بولا ؟ بولی تمہارے آفس جانے کے بعد انوں پوچھے بھابھی ٹپہ خانہ کا ں ہے ؟ میں سوچنے لگی یہ ٹپہ خانہ کتو کیا؟ لیکن بہت جلد یادآگیا پرانے زمانے کی اردو میں پوسٹ آفس کو ٹپہ خانہ بولتے تھے میں پوچھی کیا کام ہے آپ کو واں ؟ بولے بھابھی محل بولے تھے بنگلور پہنچتے اچ خیریت کا خط لکھنا۔ دیکھو انوں کتّی عزت سے محبت سے بولتے بیوی کو اور ایک آپ ہیں بے تکلف دوستوں میں یہ میری جورو ہے اور کسی محفل میں یہ میری بیوی ہے مسز ہے بولکے تعارف کراتے تھے۔ ہوگئی بات تمہاری پوری؟ اس نے منہ پھلا کر قدرے ناراضگی سے کہا، ہا ںہو گئی ۔ میں نے کہا بیوقوف عورت تم جانتی ہو بعض حیدرآبادی لوگاں جورو کو محل کئیکو بولتئیں؟ اسے بولنے کا موقع دئے بغیر میں نے بات جاری رکھی اور کہا، بعض حیدرآبادیوں کی ایک ’’ جھونپڑی ‘‘ بھی ہوتی ہے اور اس جھونپڑی میں وہ کسی ’’ مہترانی ، چمارنی ، لمباڑنی یا نوکرانی کو رکھتا ہے ۔ اگر جھونپڑی میں کوئی پڑوسن یا ممیری، پھپھیری یا خلیری کزن ہو تو وہ اس کو گھر لاتا اور اس کو محل بنا کر پرانے محل کو در در کی ٹھوکریں کھانے کسی جھونپڑی میں ہانک دیتا ہے۔ وہ غور سے سن رہی تھی نہ کسی بات پہ ٹوک رہی تھی نہ بات ہی کاٹ رہی تھی ۔ میں بولتا رہا کہ ایسا ایک اجڑا محل جب جھونپڑی ہانکا گیا تو ہمارے گھر کے سامنے کے ایک کمرے کے گھر منتقل ہوا۔ اس کھنڈر محل کی دو بیٹیاں بھی تھیں ایک بیاہتا اور ایک بیاہ کے لائق، داماد بھی انہی کے ساتھ رہتے، بیروزگار تھے، روز صبح نوکری کی تلاش میں نکلتے۔بالآخر ٹپک پڑی تم تو اس کے چکر میں پڑ گئے ہونگے نئیں؟ چپ، خاموشی سے سنو، ایسی کوئی بات نہیں تھی میرے منجھلے بھائی کے ایک دوست میرے بھی دوست اس ان بیاہتابچی کے چکر میں تھے تقریباً ہر شام باقاعدگی کے ساتھ دو ڈھائی کیلومیٹر چل کر آتے اور دیر تک ماں بیٹیوں سے باتیں کرتے۔ ایک دن جب وہ آئے تو میں گھر سے نکل رہا تھا اور مجبوراً ان کے ساتھ ان ماں بیٹیوں سے باتوں میں الجھنا پڑا۔ ابھی ہم لوگ باتیں کر ہی رہے تھے کہ داماد آگئے، شوہر کو دیکھتے ہی بڑی بیٹی کا چہرہ کھل اٹھا، چہکتی آواز میں بولی ، آگئے سر تاج، لیکن سر تاج سر جھکائے ہی کھڑے رہے، کیا لائے میرے واسطے ؟ سرتاج کا سر اور جھک گیا۔ وہ بولی کچھ بھی نئیں لائے، خالی ہاتھ آگئے ، اجی زندے سکندر تم کئیکو آئےتمہاری میت کئیکو نئیں آئی، دو پاؤؤں پو چل کو کئیکو آئے چار کے کندھوں پہ کئیکو نئیں آئے ، اجی قد گڑھے سڑکوں پہ اتے موٹراں بساں لاریاں ٹرکاں چلتئیں تم کسی موٹر، بس، لاری یا ٹرک کے نچے کئیکو نئیں آے گھر کو کئیکو آئے؟ اجی اجاڑ صورت سڑکوں کے اوپر منسپالٹی کے اتے نلاں لگے ہیں کسی نل سے منہ پو دو چھپکے ہی مار لینا تھا، امّاں دیکھو نہ کالے گھونگریالے خوبصورت بال خاک میں اٹ کو بھورے ہوگئیں، گوری رنگت دھول پسینے سے کالی پڑگئی، آنکھوں میں حلقے پڑگئیں، کلّوں میں گڑھے پڑگئیں اور گلاب کی پتی کے سریکے ہونٹاں سکھ کو امچور ہوگئیں، اجی جوانا مرگ کئیکو زمین کو گھور لے کو کھڑئیں،تمہارے واسطے نہ زمین پھٹیں گی اور نہ تم پہ آسمان ٹوٹیں گا، تم تو بقول مرزا غالب ’’ غرق دریا ‘‘ ہوئینگے، چھوٹے بڑے مچھیاں تمہارا گوشت نوچ نوچ کو کھائینگے ،نوچ نوچ کو کھائینگے ، اجی ادھمڑے کب تک ایسیچ باہر کھڑیں گے اندر آؤ منہ ہاتھ دھو دسترخوان بچھاتیوں خاصہ لگاتیوں بیٹھ کو ڈھسکو۔
اس نے ائی کہا اور دونوں ہاتھوں سے چہرہ چھپالیا میں نے ہاتھ بڑھاکر کھٹکا دبایا بتّی گُل ہوگئی۔.
پیران پیرحضرت مشتاق احمد یوسفی صاحب نے فرمایا تھا، ’غزل، کھاگئی نوجواں کیسے کیسے‘۔ لیکن آج منظر نامہ یہ ہے کہ، ’’غزل کھاگئے، نوجواں کیسے کیسے‘‘
حکماے قدیم نے مرضِ تکبندی کا اہم سبب، یکطرفہ محبت بتایا ہے،اور مرض مشاعرہ بازی کا سبب، بغیر کام کیے شہرت و دولت کی ہوس۔ راجا راشدی صاحب ، طایفۂ ثانیہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہندو اساطیر کے مطابق، وشنو کے پانچویں اوتار، وامن نے دو قدموں میں زمین اور آسمان ناپ لیے تھے، یہ بھی دوقدموں میں دونوں دنیائیں حاصل کرلینا چاہتے ہیں۔ وامن اوتار نے تیسرا قدم راجا بلی کے سر پر رکھ کر اسے سورگ لوک پہنچا دیا تھا۔ آجکل یہ بھی تیسرا قدم شاعری کے سر پر رکھ کر اُسے جنت مکانی کرنے سے باز نہیں آتے۔
موصوف کوئی بے پڑھے لکھے شخص نہیں ہیں؛ بے قاعدگی سے سول انجینئر نگ کی ہے۔ صرف ادب نہیں پڑھا،تو اس سے کوئی فرق پڑتا ہے؟ جب انجینئرنگ کے سہارے دو جون کی روٹی کا انتظام ہونا مشکل ہوا تو مشاعرے میں ڈول ڈالا اور ماشاء اللہ کامیاب رہے۔
اس کا قصہ یوں ہے کہ ایک دن کرانہ کی دکان پر انھیں قسمت کی چابی مل گئی۔ لالا جی نے بوسیدہ بیاض دیتے ہوئے کہا، ’’انجینئر صاحب دیکھیے، ردّی میں اردو کی ایک کتاب آگئی ہے۔‘‘ موصوف نے بادلِ نا خواستہ ورق گردانی کی تو پایا کہ اس میں غزلیں مرقوم ہیں۔ دماغ کی بتی جل گئی اور اُسی شام شاعر بن کر احباب کے حلقے میں ایک غزل سنا دی۔ زبردست داد ملی تو حوصلہ بڑھ گیا۔ فوراً مشاعرے کے بروکر سے ملے، کچھ نذرانہ پیش کیا کہ سرمایہ کاری ،تجارت کی پہلی شرط ہے۔ منتظمین نے اگلے مشاعرے میں پڑھنے کا موقعہ دیا اور چند لڑکے مقرر کردیے۔ ان کا کام یہ تھا کہ ہر شعر پر داد دیں اور غزل ختم ہونے پر دوڑ کر ہار پہنائیں۔ سب کچھ منصوبہ بند طریقے سے ہوا، اور راشدی صاحب کامیاب رہے۔ اس کے بعد انھوں نے مڑ کر نہیں دیکھا۔ مالِ مفت، دل بے رحم۔ جوشِ ہوس میں رفتہ رفتہ ساری غزلیں سنادیں اور خالی ہوگئے۔ اب انھیں کم از کم چار پانچ بار استعمال کرنے کے لیے ایک نئی نویلی غزل تو چاہیے ہی تھی۔لہٰذا معاملہ یہ رہا کہ خریدی جا سکے تو ٹھیک ، اغوا کی جاسکے تو ٹھیک ترین۔
ایک شام دوڑے دوڑے تشریف لائے کہ ایک مطلع ہواہے، ملاحظہ فرمائیں۔ ان کے چہرے کی چمک بتارہی تھی کہ آج لاولدی کا داغ مٹ گیا۔ ہمارے ارشادکہنے سے پہلے ہی فرمایا:
وہ بڑی فرصتوں سے بنائے گئے
ہم بڑی عجلتوں سے بنائے گئے
ہم نے کہا، ’’اگرمصرعہء ثانی میں بنائے کے ب کی جگہ ج کردیں تو…؟‘‘
فوراً قلم نکال کر اصلاح کی اور یہ جا وہ جا۔ ہم آواز دیتے رہ گئے۔ پھر مشاعرے میں مذکورہ اصلاح کے ساتھ اپنا مطلع پڑھ کر عذابِ دارین حاصل کیا۔
اگلی ملاقات میں بہت روٹھے روٹھے تھے کہ ’آپ نے مجھے رسوا کردیا۔‘ عرض کیا، ’’راشدی صاحب، عوام جاہل ہے۔ آپ نے کمال کا شعر کہا ہے، اس میں تخلیق ِشعر پر ڈسکورس ہے۔ آپ کا شعرکہہ رہا ہے کہ دوسرے شعراء اپنے اشعار بناتے ہیں۔ جیسے ٹیبل، کرسی وغیرہ، یعنی ان کے اشعار بناوٹی ہوئے۔ جبکہ ہم جنائے جاتے ہیں۔ لہٰذا ہم ذی نفس ہیں، زندہ ہیں۔ فرصتوں اور عجلتوں میں صنعت تضاد بھی ہے، جو شعر کے معنوں میں اضافہ کا باعث ہے۔ وہ فرصتوں کے باوجود بناوٹی اور ہم عجلتوں کے باوجود زندہ، بھئی کمال کا شعر ہے!‘‘
یہ سن کر راشدی صاحب رقت کے ساتھ بولے، ’’ایک آپ ہی بندہ کو سمجھتے ہیں۔‘‘ اس کے بعد انھوں نے کنواری غزلوں کی تلاش چھوڑ دی ۔اس طرح یتیم اور بیاض نشین غزلوں کو ان کے غنا بالجبر سے امن نصیب ہوا۔
پھر ہر دوچار روز بعد ایک سر جھاڑ منھ پہاڑ غزل بناکر لے آتے کہ ایک نظر دیکھ لیجیے۔ حکومت اگر بے وزن شاعری پر چالان شروع کردے تو کروڑوں روپئے سرکاری خزانہ میں جمع ہوسکتے ہیں اور ہم اس کارِ نیک کے لیے مخبری جیسا پوچ کام کرنے کو بھی تیار ہیں۔ خیر، غازہ مسی سے کیا کام بنتا، سرجری کرنی پڑتی اور ہم جونہی غزل کی پلاسٹک سرجری سے فارغ ہوتے، وہ فوراً اسے دوسرے کاغذ پر نقل کرتے اور تصحیح شدہ پرچہ پرزہ پرزہ کرکے پھینک دیتے۔
مقام شکر ہے کہ کچھ عرصہ بعد راشدی صاحب کو ایک وظیفہ یاب ہیڈ ماسٹر کا سہارا مل گیا اور وہ اُن سے مشورۂ سخن کرنے لگے۔ ہیڈ ماسٹر صاحب ،میر ، غالب اور اقبال کے نام ہی سے چڑتے ہیں کہ اردو والوں کو ان کے علاوہ کوئی شاعر دکھتا ہی نہیں۔ ان کی صحبت میں، سنا ہے پچھلے دنوں راشدی صاحب بھی اعلان کرچکے ہیں کہ اگر جامعات میں ان شعراء پر تحقیق بند نہ ہوئی تو ہم فسادات پر شعر پڑھنا بند کردیں گے۔
راجا راشدی صاحب اب مسلسل ہوٹ ہونے لگے تھے۔ نیا لطف یہ ہوا کہ مشاعرہ میں ایک نوجوان، اپنی شال میں کتے کا پلّا چھپا کر لایا۔ جونہی راشدی صاحب نے شعر پڑھا، پلّے پردھپ جمادی گئی۔ پلّا زور سے چیخا۔ اور راشدی صاحب کے ہر مصرعے پر چیختا رہا اور سامعین کو تفریح کے لیے مزاحیہ شاعر کی ضرورت نہ رہی۔
اس حادثہ سے راشدی صاحب کی آزردہ خاطری میں اضافہ ہوگیا۔ گھر سے نکلنا چھوڑ دیا۔ پھر ایک دن ڈان کیہوٹے (Don Quixote)کی کھوپڑی میں نیا منصوبہ آگیا۔ ریاکاری کا چمن ،فصل خزاں سے مامون رہتا ہے، لہٰذا از سر نو حصولِ عزت کے لیے ’حاجی صاحب‘ بن جانا لازمی ٹھہرا۔ کسی طرح عمرہ کر آئے اور داڑھی ٹوپی کے ساتھ مشاعرہ پڑھنے لگے۔ یہ ہتھیار مؤثر ثابت ہوا اور لڑکوں نے ہوٹ کرنا بند کردیا۔
بہر کیف اب وہ علامہ بن چکے ہیںاور وقتاً فوقتاً اپنی استادی کا ثبوت بھی مہیا کرتے ہیں۔ ایک بار ہمارے ایک دوست نے کسی بات پر مصرعہ نقل کیا :
ہمیں یاد سب ہے ذرا ذرا تمھیں یاد ہوکہ نہ یاد ہو
بولے، ’’صاحب، شعر کہتے وقت دماغ حاضر ہونا چاہیے۔ اگر سب یاد ہے تو ذرا ذراکہنے کی کیا ضرورت ہے۔‘‘ اور اس سے پہلے کہ ہم وضاحت کرتے کہ کم از کم اس معاملے میں وہ بے خطا ہیں، راشدی صاحب نے اصلاح فرمادی:
ہمیں یاد ایک ایک بات ہے تمھیں یاد ہوکہ نہ یاد ہو
اور فاتحانہ مسکراہٹ کے ساتھ ہماری جانب دیکھنے لگے۔ ہمارے دوست نے انتہائی تشکر کے ساتھ پوری غزل لکھ کر پیش کردی کہ حضور غزل ہی کی اصلاح فرمادیں۔ انجینئر صاحب نے غزل لی اور دس منٹ میں پوری غزل کا رِنوویشن کردیا۔ اصلاح کرتے ہوئے درس بھی جاری رہا، مثلاً
وہی وعدہ یعنی نباہ کا تمھیں یاد ہوکہ نہ یاد ہو
بولے، ’’بھئی نباہ تو تب ہوگا جب نکاح ہوجائے۔ کیا، لیو اِن رلے شن شپ کے حامی ہیں آپ؟‘‘پھر قہقہہ لگا کر فرمایا، ’’یوں کیجیے:
وہی وعدہ یعنی ’نکاح‘ کا تمھیں یاد ہوکہ نہ یاد ہو‘‘
راشدی صاحب، بنت العنب کا تذکرہ سنتے سنتے اور تذکرہ کرتے کرتے، ایک دن ایسے بیتاب ہوئے کہ اسے ہونٹوں سے چھو ہی لیا۔ پھر اس کی زلفِ گرہ گیر کے اسیر ہوکرہفتے میں دو تین بار کسی بار کے باہر پڑے ملتے۔ ہم نے عرض کیا، ’’آپ عمرہ کر آئے ہیں ، کیا یہ منظر اچھا لگتا ہے؟‘‘ فرمایا، ’’میں بھی سوچتا ہوں کہ عمرہ ذرا جلدی ہوگیا۔‘‘
پھر یہ افواہ اڑی کہ موصوف کسی مطلقہ شاعرہ سے عشق بھی فرما رہے ہیںاور آگ دونوں طرف برابر لگی ہوئی ہے۔ سو، ملاقات ہوتے ہی دریافت کیا تو بولے، ’’قسم لے لیجیے، یہ محض تہمت ہے۔‘‘ ہم نے کہا، ’’پھر آپ تردید کیوں نہیں کرتے؟‘‘ قدرے شرماکر ارشاد عالی ہوا، ’’کیا ایسے حسین الزام کی تردید کی جانی چاہئے؟‘‘
ان دنوں وھاٹس ایپ پر آفتابِ عالم تاب بنے ہوئے ہیں۔ پچیس تیس گروپ بنا رکھے ہیں، جن میں کچے لیموں راجا راشدی صاحب کے لیے لگاتار توصیفی کلمات پوسٹ کرتے ہیں۔ ’کچے لیموں‘ دراصل وہ اپنے شاگردوں کوکہتے ہیں، اور اُن سے براے اصلاح، فی شعر دس روپئے وصولتے ہیں، اور شاگرد، ۷x۲۴ اُن کی خدمت میں متحرک الانگشت رہتے ہیں۔ بلکہ ایک ترش، تو محض اس وجہ سے ہمیں سلام نہیں کرتا کہ ہم نے اس کے گروپ، ’راجا راشدی فین کلب‘ سے ایگزٹ کر لیا تھا۔
قصہ مختصر راجا راشدی صاحب فنا فی الشعر شخص ہیں۔ وہ جماہی لیتے ہیں تو ’رباعی‘ اور چھینکتے ہیں تو ’ہائیکو‘ سنائی دیتا ہے۔ ایک مرتبہ نھیں ہچکی لگی تو ہم نے صاف سنا ، ’قطعہ قطعہ قطعہ قطعہ‘کہہ رہے تھے۔