Karnatak Adab

ڈاکٹر وی آر سوریہ ونشی جب دواخانے پہنچے تو کچھ مریض انتظار کر رہے تھے ۔ ڈاکٹر صاحب کو اپنے اعلیٰ نسل ہونے پر اتنا فخر تھا کہ ان کے پاس اونچی ذات کے مریض ہی آنے کی جرأت کرسکتے تھے۔
ابھی وہ ٹھیک طرح سے بیٹھ بھی نہ پائے تھے کہ ایک شور بلند ہونے پر ان کا موڈ بگڑ گیا۔ ڈاکٹر وینکٹ رام سوریہ ونشی کو دواخانے سے بیس قدم کے فاصلے پر لگے منسپالٹی کے نل پر ہمیشہ غصّہ آتا تھا ۔ جہاں گندی بستی کے رہنے والے پانی کے لئے جانوروں کی طرح لڑ پڑتے تھے۔ جب کہ قریبی حوض میں جانوراطمینان سے پیاس بجھاتے تھے۔
ڈاکٹر صاحب باہر نکلے اور جھگڑا کرنے والوں کو خونخوار نظروں سے گھورنے لگے
کسی عورت نے پانی بھر نے میں بے ایمانی کی تھی۔ جس کے سبب جھگڑا چھڑ گیا تھا۔ نیم برہنہ عورتیں اور ننگ دھڑنگ بچے ایک دوسرے سے مار پیٹ کرتے ہوئے گالیاں بک رہے تھے۔
نئے دور کی پابندیوں میں جکڑے ڈاکٹر کسی عفریت کی طرح پھٹکارنے لگے
ان کی نظروں میں ماضی کا وہ منظر ابھر آیا جب نچلی ذات والے گاؤں کی بڑی حویلی کے راستہ پر چلنا تو درکنار نظر ڈالنا بھی جرم سمجھتے تھے۔ ان کے باپ دادا کے دور اقتدار میں کوئی بھی ہریجن چھتری اور چپل استعمال کرنے کا گناہ نہیں کر سکتا تھا۔
ایک دن بھیما چمار شہر سے چپل پہن کر گاؤں آنے کی حماقت کر بیٹھ تو ڈاکٹر صاحب کے باپ نے جو گاؤں کے پٹیل تھے اس جرم کی سزا کے طور پر چماروں کی ساری بستی جلا کر راکھ کر ڈالی تھی۔ جس میں کئی عورتیں ، بچے اور بوڑھے جل مرے تھے۔
جن کی زبان سے نکلا ہوا حکم قانون ہوا کرتا تھا۔ ان کے ہاتھ آج بندھے ہوئے تھے۔ اور زبان پر تالے پڑے ہوئے تھے ۔ ڈاکٹر صاحب غصّہ کی آگ میں جل رہے تھے کہ اتنے میں ایک قلی نے اپنا ٹھیلہ دواخانے کے روبرو کھڑا کر دیا اور پسینہ پونچھتا ہوا بیڑی سگریٹ کی دوکان کی طرف بڑھا جو دواخانہ سے لگی ہوئی تھی۔
ڈاکٹر صاحب کے ذہن میں نفرت کی آندھیاں چلنے لگیں۔
قلی نے اپنی ہی دھن میں فٹ پاتھ پر پڑی ردی سے ایک کاغذ اٹھا کر دیوار سے لگے چراغ سے بیڑی جلائی اور جلتا ہوا کاغذ پھینک کر آگے بڑھ گیا۔
’’او۔ کم ذات۔ آگ بجھا کر جا…؟؟‘‘ ڈاکٹر صاحب کی نفرت نے گویائی اختیار کر لی۔
قلی جو ٹھیلہ تک پہنچ گیا تھا گھوم گیا۔ اس کے منہ سے کثیف دھواں نکل رہا تھا پہلے تو اس نے حقارت بھری نظر ڈاکٹر کے اجلے سراپا پر ڈالی پھر ڈاکٹر کے لہجے میں چنگاریاں محسوس کرتے ہی قلی کے رگ و پے میں آگ بھڑک اٹھی۔ ’’کیا ۔۔تم آگ بجھا نہیں سکتے ؟‘‘اب صدیوں کی غلامانہ ذہنیت آمادۂ بغاوت ہوگئی تھی۔
’’کمبخت۔۔! ہم اونچی ذات والے ایسے ذلیل کام نہیں کرتے ۔!‘‘
مزدور کے جبڑے بھنچ گئے۔ اور وہ ڈاکٹر کو تیز نظروں سے گھورتا ہوا ایک قدم آگے بڑھا اور منہ پھیر کر زمین پر تھوکتے ہوئے ٹھیلہ لے کر آگے بڑھ گیا۔ سوریہ ونشی ڈاکٹر نیچی ذات کی بد تہذیبی پر چراغپا ہوگئے اور ان کے منہ سے گالیوں کا طوفان ابل پڑا۔
نل پر جھگڑتے ہوئے گندی بستی کے لوگ خاموش کھڑے اونچے آدرشوں کی دیواروں کو گرتا ہوا دیکھنے لگے۔
اتنے میں کوئی آگ آگ چلّانے لگا۔ ردی میں لگی ہوئی آگ نے زور پکڑ لیا تھا۔ دوا خانہ بھی شعبوں کی لپیٹ میں آچکا تھا۔ بھیڑ چھٹنے لگی ۔ ڈاکٹر گھبراہٹ میں ادھر اُدھرچیختے چلاتے بھاگنے لگے نل کے قریب کھڑی ہوئی متوحش عورتیں پانی کے گھڑے لئے یہ سب تماشہ دیکھتی ہی رہ گئیں۔ ان کو جرأت نہ ہوسکی کہ وہ آگ بجھانے کے لئے اپنے ’’ناپاک‘‘ گھڑوں کا
پانی استعمال کر سکیں۔
اتنے میں کوئی عورتوں کے گھڑے چھین چھین کر شعلوں پر پھینکنے لگا۔ پھر سب کی ہمت بندھی ۔ حوض خالی ہوتا گیا۔ سنسناتے ہوئے شعلے سرد پڑنے لگے۔ دھول اور دھویں نے ماحول کو اپنے لپیٹ میں لے لیا۔ آگ بجھانے کے لئے پہل کرنے والا نوجوان گرد آلود چہرے سے پسینہ پونچھنے کے بعدجسم کے جھلسے ہوئے حصوں پر پھونک مارنے لگا۔
سوریہ ونشی ڈاکٹر آگے بڑھے اور نوجوان کو گلے سے لگالیا۔
’’نوجوان میں تمہارا احسان مند ہوں۔‘‘ڈاکٹر کا لہجہ پر وقار تھا۔ ‘‘ تم بہت بہادر ہو ‘‘ مجھے فخر ہے تم پر ، ضرور تمہاری رگوں میں کسی اعلیٰ خاندان کا خون دوڑ رہا ہوگا۔‘‘
زخم خوردہ نوجوان کے چہرہ پر تنفر آمیز مسکراہٹ پھیل گئی۔
’’ڈاکٹر صاحب۔ میری رگوں میں اسی بھیما چمار کا خون ہے جس کا سارا خاندان آپ کے بزرگوں نے کوڑے کرکٹ کی طرح جلا دیا تھا ۔ میں تو یہاں بدلہ لینے آیا تھا ، لیکن ………!!
سوریہ ونشی ڈاکٹر کے گھمنڈ کو ٹھوکر سی لگی اور انکی گردن ندامت سے جھک گئی چنگاریاں دھواں دینے لگیں تھیں۔ دور سے فائر بریگیڈ کا انجن چیختے ہوئے قریب آرہا تھا۔