ابن صفی نے 1952 میں جاسوسی ناول لکھنے شروع کئے ان کا پہلا ناول ’’ دلیر مجرم ‘‘ تھا جس میں انہوں نے احمد کمال فریدی اور ساجد حمید کو متعارف کرایا تھا۔ کچھ عرصہ بعد انہوں نے علی عمران اور کیپٹن فیاض کو متعارف کرایا ۔ اور ہر ماہ دو ناول لکھنے لگے ۔ ’’ جاسوسی دنیا ‘‘ فریدی اور حمید کے لئے اور’’ نکہت ‘‘ عمران کے لئے ۔
جاسوسی دنیا میں انہوں نے بتدریج انور رشیدہ ، قاسم اور نیلم کو فریدی اور حمید کی ٹیم کا جزو بنایا ویسے اسٹاف میں انسپکٹر جگدیش ، لیڈی انسپکٹر ریکھا اور رمیش بھی تھے ۔ ابتدائی ناولوں میں فریدی انسپکٹر اور حمید سرجنٹ تھے۔ ’’ موت کی چٹان ‘‘ کا کیں حل کرنے کے بعدفریدی کو کرنل اور حمید کو کیپٹن کے اعزازی عہدے تفویض کئے گئے ۔
عمران کو ابتدائی ناولس میں شوقیہ سراغرسی کرتے اور کیپٹن فیاض کے کیس سلجھاتے بتایا پھر اس کو سر سلطان کے محکمہ میں فوجی عہدے اور سیکریٹ سروسس کا چیف بنایا اور اس کی ٹیم میں جولیانا فٹز واٹر ، تنویر، خاور، نعمانی اور چوہان بعد میں صفدر اور بہت بعد نیمو کو شامل کیا ۔ عمران خود ایکسٹو تھا جو اپنے ماتحتوں کے سامنے کھبی نہیں آیا لیکن بحیثیت علی عمران خود بھی ایکسٹو کی ٹیم میں شامل رہا ۔ بلیک زیرو اس کی غیر موجودگی میں ایکسٹو کا رول ادا کرتا تھا ۔ عمران سیکریٹ سروسس کا چیف ہے اس راز سے صرف عمران ، سر سلطان اور اینگلو برمیز روشی اور ہیوی ویٹ باکسنگ چیمپئن جوزف واقف تھے ۔ ایک کیس میں عمران جوزف کو باکسنگ میں شکست دیتا ہے لیکن جب جوزف کو مجرم کا ساتھ دینے کے الزام میں سزا ہو رہی تھی ، عمران اس کو وعدہ معاف گواہ بناتا ہے ، جس کے بعد وہ عمران کا بے دام غلام بن جاتا ہے ۔
عمران کا خاندان شروع ہی سے عمران سیریز کا حصہ رہا، والد ڈائرکٹر جنرل آف پولیں رحمن خان ، والدہ ماجدہ ،بہن ثریا اور پشتینی ملازم سلیمان ۔ جب عمران کو گھر سے نکالا گیا ( ایک کیں حل کرنے میں مدد کرنے والی لڑکی روشی کو ساتھ لانے کے جرم میں) اور عمران ایک فلیٹ منتقل ہوا تو سلیمان بھی اس کے ساتھ رہنے لگا ۔
ان مستقل کرداروں کے علاوہ ابن صفی نے شروع ہی سے بیشمار یادگار کردار پیش کئے ۔ ان کے ہرناول میں ایک مظلوم لڑکی ضرور ہوا کرتی تھی جو حالات کا شکار ہوتی اور یا تو مجرموں کا آلہ کار بنتی یا مجرموں سے بدلہ لینے کا ٹھانتی اور مصیبتوں میں گھر جاتی ۔ نیلم ( طوفان کا اغوا ) ایسی ہی ایک ستم رسیدہ لڑکی تھی ۔
ابن صفی کے ولین بھی خصوصی اہمیت کے حامل ہوتے، اکثر نفسیاتی ہوتے اور بعض سماج سے انتقام لینے مجرم بن جاتے ۔ بعض مجرموں کو ابن صفی نے دوامی کردار بنا دیا اور ایک ایسے ملک زیرو لینڈ کا شہری بنایا جس کے سربراہ ساری دنیا پر حکومت کرنے کا منصوبہ رکھتے تھے ۔ ایسے کرداروں میں تھریسیا بمبل بی آف بوہیمیا اور چینی سنگ ہی ہیں ۔
1952 سے 1960 تک لگاتار ماہانہ دو ناول لکھتے رہنے کے باعث ابن صفی نفسیاتی دباؤ کا شکار ہوئے اور تین سال تک لکھ نہیں سکے ۔ علالت سے پہلے انہوں نے ہمبگ سیریز کے تین ناول لکھے تھے اور چوتھا اورآخری ناول ’’ دیڑھ متوالے ‘‘ کا اعلان کیا تھا ۔
لیکن جب یہ ناول بازار میں نہیں آیا اور تاخیر طول پکڑتی گئی ، مفاد پرست پبلشروں نے ایک درجن سے زیادہ ابن صفی پیدا کر دئیے اور سبھوں نے ’’ دیڑھ متوالے ‘‘ لکھی ۔ اور فریدی ، حمید ، علی عمران اور اس کی ٹیم کی مٹّی پلید کرنے لگے ۔یہ سلسلہ ابن صفی کے انتقال ( 26 جولائی 1980 ) کے آج 40 سال بعد تک جاری ہے۔ اور شائد جب تک اردو زبان ہے ابن صفی کے کرداروں کے ناول لکھے جاتے رہیں گے ۔
1952 سے 2020 تک تقریباً 68 سال کا عرصہ ہو چکا ہے اور ابن صفی کے کردار جواں سال بھی ہیں اور ذہین و پھرتیلے بھی ہیں ۔
میں بھی ابن صفی کے بنائے اور بتائے راستے پر چلنے کی کوشش کررہا ہوں۔ لیکن ایک فرق کے ساتھ ، کافی غور کرنے کے بعد میں نے فیصلہ کیا ہے کہ ابن صفی کے تمام کرداروں کو اب ریٹائر ہوجانا چاہئے اور ان کی جگہ تاز ہ دم جوان ٹیم کو میدان میں لانا چاہئے ۔ یہ میں کیسے کروں گا ، آپ کو یہ پہلا ناول پڑھنے کے بعد اندازاہ ہو جائے گا ۔
’’ قاسم کی شادی ‘‘ یہ ’’ ابن صفی کی دنیا ویب سیریز ‘‘ کا پہلا ناول ہے، ٹائٹل ہی سے اندازہ ہوگیا ہوگا کہ اس ناول میں قہقہے ہی قہقہے ہوں گے، سراغرسانی نہیں، یہ ناول ’’ ابن صفی کی دنیا ویب سیریز ‘‘ کا یوں سمجھئے دیباچہ ہے ۔ ایکشن ناولز اس کے بعد انشاء اللہ پیش کروں گا ۔ عسکر واسطی
دوسری بیوی ؟
دسمبر شروع ہی ہوا تھا لیکن پارہ بہت نیچے گر چکا تھا ۔ نہایت سرد رات تھی ابھی ساڑھے نو ہی بجے لیکن گمان آدھی رات کا ہو رہا تھا ۔ کرنل فرید ی اور کیپٹن حمید دیر تک آفس میں سر کھپانے کے بعدگھر لوٹ آئے تھے ۔ گو حمید باہر ہی کھانے کی ضد کر رہا تھا لیکن فریدی اسے بڑی مشکل سے گھر ہی کھینچ لایا تھا کیونکہ اس کو گھر پر بھی کام کرنا تھا جس کے لئے حمید ضروری تھا ۔
دونوں کھانے سے فارغ ہو کر کافی پینے لائبریری میں بیٹھے ہی تھے کہ ملازم نے بتایا کہ قاسم آیا ہے ، قاسم کے لئے وزیٹنگ کارڈ دینا یا ملازم سے کہلوانا ضروری نہیں تھا ۔ لیکن گھر لوٹتے ہی فریدی نے ملازموں کو ہدایت دے تھی کہ کسی کو بھی اجازت کے بغیر اندر نہ آنے دیا جائے ۔ جب قاسم لائبریری پہنچا تو اس کا موڈ بے حد خراب تھا ۔ اس نے چھوٹتے ہی کہا ’’ مجھے قیوں روقا قیا ، وہ حمید کو گھورتے ہوئے بولا ‘‘ ۔
لیکن حمید کی نظر اس خوبصورت لڑکی پر جمی تھی جو قاسم کا بازو تھامے اس کے پہلو میں کھڑی تھی ۔ لڑکی مغربی تھی لیکن لباس مشرقی تھا اور اس نے نقاب سے چہرہ چھپا رکھا تھا ۔ بیوی تو ہو نہیں سکتی حمید نے سوچا وہ تو چھوٹے قد کی چھوئی موئی سی ہے اور یہ لڑکی قدرے دراز قد تھی ، برقعے کی باوجود بھی اندازہ لگایا جا سکتا تھا کہ متناسب الاعضا بھی ہے۔
قاسم کی نظریں حمید پر جمی تھیں اس نے ابھی تک شائد فریدی کو نہیں دیکھا تھا اس لئے دھاڑا ’’ قیوں قیوں قھور رہے ہو ؟
حمید کے جواب دینے سے پہلے فریدی بولا ’’ کیوں شور مچا رہے ہو ؟ اور یہ لڑکی کون ہے تمہارے ساتھ ؟
فریدی کی گرج دار آواز سنتے ہی قاسم بوکھلاگیا اور بولا ’’ آپ ، میں آپ ہی سے ملنے آیا ہوں ۔
بیٹھو اور بولو کیا بات ہے ؟ فریدی نے کہا۔
م ممیں شادی کر رہا ہوں ، قاسم ہکلایا ۔
شادی ؟ تمہاری شادی تو برسو ں پہلے تمہارے باپ نے کرادی تھی ؟ حمید بولا
تم چپ رہو ، قاسم غرّایا، میں دوسری شادی کر رہا ہوں ، اور مجھے آپ کی مدد چاہئے ، وہ فریدی کو دیکھتے ہوئے بولا ۔
کیا تمہارے باپ کو اطلاع ہے ؟ فریدی نے پوچھا۔
اور کیا چ چ چپاتی بیگم بھی جانتی ہی ؟ حمید نے دھمکایا ۔
حمید بھائی تم کچھ دیر چپ ہی رہو ۔ قاسم نہایت سنجیدگی سے اور صاف شستہ زبان میں بولا ۔
حمید کو اس کی سنجیدگی پر بڑی حیرت اور لہجے پر تعجب ہوا۔
فریدی بولا ’’ ہاں بولو قاسم ، میں سن رہا ہوں ‘‘۔
فریدی صاحب پہلے مولوی صاحب کو بلا لیں ، وہ گاڑی میں بیٹھے ہیں ۔
کون ؟ مولوی صاحب ؟ فریدی نے سوال کیا ۔
جی ہاں ، ہمارے خاندانی نکاح خواں ہیں، ان کے دادا نے میرے دادا کا اور ان کے باپ نے میرے باپ کا اور میرا نکاح پڑھایا تھا، اور اب یہ میرا دوسرا نکاح پڑھائیں گے ۔
لیکن انہیں یہاں کیوں لائے ہو ؟ فریدی نے پھر سوال کیا ۔
نکاح کے فوری بعد اگر انہوں نے میرے باپ کا بتادیا تو غضب ہو جائےگا ۔ قاسم ہکلائے اور غوں غاں کئے بغیر بولا۔ میں چاہتا ہوں کہ ہمارے ملک سے باہر جانے تک نکاح خواں آپ کی تحویل میں رہے۔
لیکن یہ تو حبس بیجا کا کیس ہو جائے گا میں تمہاری کو مدد نہیں کرسکتا ۔ فریدی نے کہا، آخر وہ کسی بھی غیر قانونی کام میں کیسے ملوث ہو سکتا تھا ۔
قاسم نے کہا فریدی صاحب یہ اغوا یا حبس بیجا کا معاملہ نہیں ہے بلکہ ’’ مصلحت ‘‘ ہے ۔ اور ان کو ہماری روانگی تک ہی روکنا ہے ، تاکہ میرے باپ کا غصے سے ہارٹ فیل نہ ہو جائے ۔ ہم نکاح کے فوری بعد سویٹزر لیند جا رہے ہیں اور پندرہ دن بعد جب لوٹیں گے تو ہم دونوں ہی والد صاحب قبلہ کے سامنے حاضری دیں گے ۔ اس وقت تک غصہ ٹھنڈا ہو جائے گا ۔
حمید بولا ابے یہ تو سقراط کی زبان کب سے بولنے لگا ہے اور پھر یہ تو کھلا اغوا کا کیس ہے ۔
قاسم سر جھکا ئے خاموش ہی رہا۔
لڑکی جو اب تک چپ رہی تھی نقاب الٹ کر بول پڑی نہیں حمید بھائی فریدی صاحب آپ لوگ قاسم کے والد کو آگاہ نہیں کریں گے ، آپ ہماری مددکریں گے ۔
فریدی اور حمید دونوں لڑکی کو حیرت سے دیکھنے لگے چہرہ جانا پہچانا لگ رہا تھا، فریدی نے سگار سلگاتے ہوئے کہا ،اوہ تو یہ تم ہو ۔
حمید پھر بھی پہچان نہیں سکا۔
لڑکی بولی جی ہاں میں کارسیکا ہوں۔
نام سن کر حمید کی آنکھیں حیرت سے پھٹ گئیں اس نے کہا لیکن تم نے یہ کیا حلیہ بنا رکھا ہے ؟ حمید نے پوچھا۔
کارسیکا بولی آپ دونوں صاحبان تو جانتے ہی ہیں کہ میں قاسم کے معاملے میں بے حد سنجیدہ تھی ۔ لیکن آپ لوگوں نے میری بات کو مذاق سمجھا، میں وطن لوٹی اور وہاں میں نے آپ کے ملک کے کئی گھرانوں سے دوستی کی ، بول چال ، رہن سہن ، لباس ، آداب اور طور طریقے سب سیکھے اور قاسم کے لئے میں نے آپ لوگوں کا مذہب بھی اپنا لیا مذہبی امور سے آگاہی حاصل کی اور تمام امور میں پرفیکٹ ہو نے کے بعد ایک ہفتہ قبل یہاں آئی ، قاسم کو ڈھونڈھ نکالا اور گذشتہ تین دنوں سے ہم شادی کا پروگرام بنا رہے تھے ۔ آپ تو جانتے ہیں کہ قاسم باپ سے کتنا ڈرتے ہیں، بہت سمجھانے کے بعد بڑی مشکل سے نکاح کے لئے راضی ہوئے، لیکن اس شرط پر کہ نکاح کے فوری بعد ہم کم سے کم ایک ماہ کے لئے ملک سے باہر چلے جائیں گے اور اس وقت تک آپ اور حمید بھائی قاسم کے والد کو سمجھائیں گے ۔
اوہ تو یہ بات ہے ، فریدی بولا حمید چپ ہی رہا وہ کچھ بول کر قاسم کو غصہ دلانا نہیں چاہتا تھا، نہایت حساس معاملہ تھا ، اور قاسم اس کو ایسے گھور رہا تھا جیسے اگر وہ ایک لفظ بھی بولے گا تو اس کو اٹھاکر پٹخ دے گا ۔
لیکن یہی ملّا کیو ں ؟فریدی نے سوال کیا ۔
قاسم بے شرمی سے بولا ، کیونکہ اگر کوئی دوسرا نکاح خواں ہو گا تو والد صاحب نکاح نا منظور کردیں گے ۔
کارسیکا بولی فریدی صاحب پلیز ہماری مدد کریں، اور صرف اتنا ہی نہیں ہمارے پاس ویزا بھی نہیں ہے ۔ اور میں چاہتی ہوں کہ آپ ہمارے لئے نئے پاسپورٹ بھی بنوا دیں جن میں ہمیں میاں بیوی کی حیثیت ہو ۔
یہ کیا کہہ رہے تم دونوں ، حمید بولا۔
کارسیکا ہی نے کہا تین دن سے ہم انہی معاملات پر غور کرتے رہے ہیں، اور اس نتیجے پر پہنچے کے آپ دونوں کی مدد کے بغیر ہمارا یہ منصوبہ کامیاب نہیں ہو سکتا۔ قاسم کو یقین ہے کہ برسوں کے تعلقات ، میری محبت اور عاصم صاحب کی سختیوں کے باعث آپ ضرور مدد کریں گے ۔
فریدی گہری سوچ میں ڈوب گیا ، اور حمید کی طرف رخ کرکے بولا ، کیا کہتے ہو کردیں قاسم کی مدد ؟
اس سے پہلے کی حمید کچھ بولتا ملازم نے آکر اطلاع دی کے انور اور رشیدہ ملنا چاہتے ہیں ۔
انور اوررشیدہ کی آمد
انور اور رشیدہ نے سلام کیا اور کرسیوں پر بیٹھ گئے ۔ کچھ دیر تک رسمی باتیں ہوتی رہیں اور اس پراسرار جزیرے کا ذکر ہوا رشیدہ جس جزیرے کی شہزادی تھی ۔
قاسم اور کارسیکا خاموش بیٹھے رہے کیونکہ اس پراسرار جزیرے کے سفر کے دوران قاسم فریدی اور حمید کے ساتھ نہیں تھا ۔
اتنے میں ملاز م ٹرالی ڈھکیلتا آیا ، ٹرالی پر بسکٹ ،کافی اور کچھ لوازمات تھے ۔
چھوٹی سی ٹرالی پر بسکٹ کافی وغیرہ دیکھ کر قاسم بھناگیا اور حمید کی طرف رخ کرکے بولا ’’ ابے یہ کیا ہے ؟ اتنا سا؟
فریدی مسکرایا اور حمید ،انور اور رشیدہ ہنس پڑے، کارسیکا بھی مسکرا رہی تھی ۔ فریدی نے ملازم کوقریب بلایا اور قاسم کے لئے ہدایت دینے لگا۔ رشیدہ اور کارسیکا کافی بنانے لگیں ، رشیدہ نے کہا قاسم بھائی آپ کو کچھ دیر صبر کرنا پڑے گا ۔
میں صبر کروں اور تم لوگ میرے سامنے کافی پیؤ؟ ٹھیک ہے، میں بیچارا اتنے دن صبر ہی تو کرتا رہا ، اب تھوڑی دیر اور سہی ۔
کافی کی پہلی چسکی لینے کے بعد فریدی نے رشیدہ سے پوچھا اب بتاؤ تم دونوں اتنے گھبرائے کیوں ہو ؟
رشیدہ نے کہا بہت بڑی گڑبڑ بلکہ معاملہ انتہائی سنگین ہے ، قدرے توقف کے بعد بولی مجھے اور آپ کو بھی میرے جزیرے کا سفر ایک بار پھر کرنا ہے ۔ جزیرے میں حال میں نئی فوجی حکومت قائم ہوئی ہے اور یہ حکومت میری اور آپ کی بھی دولت ہضم کرنا چاہتی ہے۔ اس کے لئے حکومت نے ایک قانون بنایا ہے کہ اگر میں اس سال 31 دسمبر تک اپنے شوہر کے ساتھ جائیداد کا دعویٰ کرنے کے لئے حکومت کے سامنے پیش نہیں ہوتی ہوں تو حکومت میری جائیداد ضبط کر لے گی ۔ آ پ کو بھی 31 دسمبر تک آپ کی دولت کے لئے دعویٰ کرنے حکومت کے سامنے حاضری دینی ہے ۔ اور مجھے جزیرے تک پہنچنے سے روکنے کے لئے ایک ٹیم یہاں پہنچ چکی ہے ۔
اوہ تو ہمیں پھر اس جزیرے کا سفر کرنا ہے ، لیکن تمہیں اس کی اطلاع کس نے دی ؟ فریدی نے سوال کیا۔
رمونا، ڈیگاریکا کی بیٹی نے، رشیدہ نے کہا۔
کیا رمونا نے ؟ کیا وہ آئی ہے آ فریدی نے پوچھا ۔
آئی ہے ، آج ہی پہنچی ہے ، اور پہنچتے ہی اس نے اخبار کے دفتر مجھے فون کیا اور مجھے اس نئے قانون کی تفصیل بتائی اور یہ بھی کہا تھا کہ آج رات نو بجے وہ مجھ سے ملنے آئے گی ، ہم دس بجے تک اس کا انتظار کرنے کے بعد آپ کے پاس آگئے ۔
انور پہلی بار بولا ، شاید رمونا کو اغوا کرلیا گیا ہے۔
فریدی نے کہا یقیناً یہی بات ہے ۔
حمید جو اب تک خاموشی سے سن رہا تھا بولا تو اب یہ دونوں بھی شادی کرنے والے ہیں ، اور ہمیں پھر اس منحوس جزیرے کا سفر کرنا پڑے گا ؟
لیکن اس سے پہلے ہمیں رمونا کو ڈھونڈنا ہو گا، رشیدہ بولی اور ہمارے پاس وقت بھی بہت کم ہے ۔
فریدی بولا رمونا کی فکر نہ کرو ، اس کے اغوا کا مقصد ہمیں الجھانا ہے ، وہ اسے کوئی زک نہیں پہنچائیں گے۔ تمہاری شادی اور پاسپورٹ بنانے میں دو دن تو لگ ہی جائیں گے اتنے میں شاید رمونا کو ہم ڈھونڈنے میں کامیاب ہوجائیں ۔
قاسم بولا اس سے بڑی خوشی کی بات اور کیا ہوگی ،دونوں کی شادی ا بھی اور یہیں ہوگی ، بس تم دونوں تیار ہو جاؤ ۔
رشیدہ نے بولنے کے لئے منہ کھولا ہی تھا کہ حمید بولا ، قاسم نےایک نکاح خوان کو اغوا کیا ہے ۔
رشیدہ اور انور ایک ساتھ بولے ، کیا ؟ اغوا ؟
انور بولا اور وہ بھی ایک نکاح خواں کا ، کیوں ؟
حمید شرارت بھری مسکراہٹ سے بولا قاسم کے والد صاحب عقد ثانی کر رہے ہیں ۔
قاسم کو طیش آگیا ، میرے باپ کا کیوں ہوگا عقد ثانی؟ کارسیکا نے قاسم کے بازو کو دباکر روکا، وہ حمید پر جھپٹ ہی پڑنے والا تھا ۔
فریدی نے کہا بھئی تم دونوں کے آنے سے پہلے قاسم کارسیکا سے عقد کرنے اپنے خاندانی نکاح خوان کے ساتھ آیا ہے
اوہ، قاسم بھائی آپ شادی کر رہے ہیں ، بڑی خوشی کی بات ہے ۔
حمیدایک ٹھنڈی آہ بھر کر بولا اب تم چاروں کی شادی ہو گی اور تم لوگ مجھے ماموں بنا دوگے ۔