ALLAH

خواب یا حقیقت
تھکن سے میرا برا حال تھا۔ دن بھر کی مصروفیت کے بعد کمر سیدھی کرنے تھوڑی دیر کے لیے لیٹی تھی اور ساتھ مولا علی علیہ السلام کی ولایت کے فضائل سنتے سنتے کب آنکھ لگی وللہ عالم۔ مگر میری آنکھ کھلی تو میں اونٹ کی کوہان پہ جھکی ہوئی تھی۔ میں نے آنکھیں ملتے ہوئے ادھر ادھر دیکھا ۔۔
یہ کیا ۔۔؟
میں کہاں ہوں۔۔؟
یہ کون لوگ ہیں؟
میں ان کو نہیں جانتی تو میں ان کے قافلے میں کیا کر رہی ہوں؟
ایسے ہزاروں سوال میرے دماغ میں چل رہے تھے مگر جواب ندارد۔۔۔
اپنے حلیے پہ نظر ڈالی تو اپنا لباس تک تبدیل پایا ۔ میرے ہونٹ ایسے چپ تھے جیسے کسی نے ایلفی لگا کے انہیں جوڑ دیا ہو؟
میں نے ادھر ادھر نگاہ دوڑائی تو مجھے لگا جیسے میں کسی بہت پرانے دور میں آ گئ ہوں۔ ہر طرف مٹی اور ریت کے ٹیلے تھے اور صحرا ہی صحرا۔۔
پیاس سے ہونٹ خشک ہو رہے تھے میری حالت کو دیکھ کے شاید ساتھ والے اونٹ پہ بیٹھی خاتون سمجھ گئ اور اس نے مجھے آواز دی۔’ اِبْنَة ‘ مجھے لگا اس نے جیسے مجھے بیٹی کہا۔۔۔ یہ کیا۔؟ مجھے عربی کیسے آئی۔۔
اس نے میری طرف چمڑے کا مشکیزہ کیا ۔ میں نے ہاتھ بڑھا کر مشکیزہ پکڑا اور اس کا تسمہ کھول کے پانی پینے لگی۔۔ واہ مولا کیسی لذت ہے اس پانی میں۔ آب شیریں تھا جیسے۔۔
اس عورت نے مجھے عربی میں کہا کہ یہ آب زمزم ہے۔ میں نے مشکیزہ واپس کیا اور شکرگزار نظروں سے اس خاتون کو دیکھا۔ میں عربی زبان سمجھ رہی تھی پر کیسے یہ نہیں معلوم۔
اتنے میں اونٹوں کو روک دیا گیا۔۔
لوگ عجیب حلیے میں تھے کچھ نے احرام باندھے تھے کیا یہ سب حج سے لوٹ رہے۔؟
ایک اور سوال میرے ذہن میں آیا۔ ہمارے اونٹ کے پاس ایک آدمی آیا اور عربی میں بولنے لگا ۔۔ مجھے ایسے لگ رہا تھا جیسے میں وہ سب سمجھ رہی۔ وہ شخص اس عورت کو کہہ رہا تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے قافلہ روکنے کو کہا ہے اور سب اونٹوں کے پالان اتار کے ایک جگہ اکٹھے کرنے کا حکم دیا ہے۔
کیا۔۔۔ کیا کہا۔۔۔ حضرت محمد ص انہوں نے ۔۔۔ مگر میں یہاں کیسے۔۔۔ اوہ میرے خدایا میں کہاں ہوں؟ کیا مجھے دیدار مصطفیٰ ﷺ نصیب ہونے لگا ہے ۔۔ کیا میں اتنی خوش قسمت ہوں۔
میں نے خود کو اونٹ سے گرا دیا اور جدھر لوگوں کا جم غفیر جمع تھا اس طرف جانے لگی۔۔
کوئی بھی میری طرف متوجہ نا تھا۔ سب ایک سمت دیکھ رہے تھے مجھے ابھی بس سر ہی سر نظر آ رہے تھے۔۔
میں نے ادھر ادھر متلاشی نظروں سے دیکھا ۔ میرے سے آگے ایک گروہ تھا جو کہہ رہا تھا محمد ﷺ کوئی اعلان کرنے والے ہیں بس جلدی جلدی ممبر بناو۔۔ دیر نا کرو۔۔۔
یا اللہ یہ میں کس مقام پہ ہوں؟
یہ کیسا اعلان ہے کہ جس کی گواہی میں تو نے مجھے بھی شامل کر دیا۔۔۔
بہت گرمی تھی اتنی کہ پسینے سے پورا جسم شرابور مگر اللہ جانے اس کی حرارت ایسی تھی جیسے ٹھنڈک مل رہی ہو۔ لوگ دور دور سے واپس پلٹ رہے تھے اور ایک دوسرے سے سوال پوچھ رہے تھے کہ کیا بات ہے اتنی جلدی میں نبی پاک ﷺ نے کیوں بلایا۔۔۔
اتنے میں اعلان ہوا کہ سب پالانوں کے منبر کے پاس جمع ہو جائے۔۔۔
میں بھی آگے بڑھنے لگی ۔ کیا میں اس وقت غدیر کے میدان میں تھی ؟
میری قوت گویائی جیسے ختم ہو گئ تھی مگر آنکھیں بار بار اس نمکین پانی کو پیچھے دھکیل رہی تھی جو میرے اور ان کے دیدار میں دیوار بن رہا تھا۔۔۔۔
اتنے میں بہت خوبصورت آواز کانوں سے ٹکرائی۔۔
ایسی آواز جو کبھی پہلے سنائی نا دی مجھے۔۔ ایسی میٹھی آواز کے دل سے میرے خود بخود ‘ لبیک یا رسول اللہ ‘ کی صدائیں بلند ہونے لگی۔
مجھے سبز عمامہ نظر آیا ۔۔۔ تو آنکھیں اس سبز عمامہ کے نور سے چندھیا گئ۔
اے میرے سوہنے اللہ کیا میں کوہ طور پہ تو نہیں ؟
یہ وہی نور تو نہیں جسے موسی جیسا نبی بھی نہیں دیکھ پایا۔۔۔
میرے کان سن رہے تھے وہ میٹھی آواز اور آنکھیں اس سبز عمامے پر مرکوز کہ یکایک ایک آواز ابھری علی ؑ یہاں اوپر آو ۔۔۔ ایک ہاتھ نے دوسرے ہاتھ کو تھام کر اونچا کیا ۔۔ مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے یہ تجلی مجھے اندھا نا کر دے۔۔۔
اس قدر نور اور اس قدر حسین آواز۔۔۔
سب خاموش تھے بالکل ایسے جیسے میدان میں موجود نا ہوں پر دھڑکنیں سب کی تیز تھی ۔۔
سب کے دل دھڑک رہے تھے کہ پھر آواز ابھری۔۔۔
‘اے لوگوں میں نے آج اپنا دین مکمل کیا۔ اور اس کے بعد فرمایا کہ یہ علی ؑ میرا بھائی آج سے جس جس کا میں مولا اس اس کا علی مولا ۔۔۔ ‘
میرے ہاتھ کب ہوا میں لہرائے کچھ علم نہیں۔
کب میرے ہونٹ چپ کی قید سے آزاد ہو کے علی مولا اور لبیک یا رسول اللہ ﷺ کے نعرے لگانے لگے نہیں علم۔۔۔ آنسو جاری تھے ۔ میں ان ہاتھوں کو دیکھ پا رہی تھی ان سبز عماموں کو دیکھ پا رہی تھی مگر مجھے ان نورانی چہروں کا دیدار کرنا تھا سب بخن بخن کہہ رہے تھے اور مولا علی ؑ کو مبارک باد پیش کر رہے تھے ۔۔۔ میں بھی آگے بڑھ رہی تھی کیونکہ مجھے وہ خوبصورت نورانی چہرے دیکھنے تھے مگر ریت میرے پاؤں کو جکڑ رہی تھی۔۔۔
مولا ؑ ۔۔۔میں پکار رہی تھی مولا ؑ میری طرف سے مبارک قبول فرمائیں۔۔۔ مولا۔۔۔۔۔ اتنے میں ہجوم چھٹا اور وہ نور میری طرف پلٹے ۔۔۔ اوہ اتنی روشنی کہ اس روشنی کی تاب نا لاتے ہوئے میری آنکھیں جھک گئ۔۔۔ میرے ہونٹ پکار رہے تھے
‘ فھذا علی مولا ‘ میں گواہی دے رہی تھی مگر ان چہروں کی جانب نظر نہیں اُٹھ رہی تھی۔
کیسا رعب اور دبدبہ تھا ان چہروں کا کہ آنکھیں تعظیم میں جھک گئ تھیں ۔
مجھے لگا جیسے میں ریت میں دھنس جاؤ گی کہ اچانک۔۔
میری آنکھ کھلی تو میں پسینے سے شرابور تھی اور پاس موبائل پہ علامہ صاحب غدیر بیان فرما رہے تھے۔۔۔
تو کیا یہ سب میرا خواب تھا؟
میں نے نیم تاریکی میں خود کو ٹٹولا اور میرے ہونٹ ابھی بھی فھذا علی مولا کا ورد کر رہے تھے ۔۔۔
اگر یہ خواب تھا تو یہ میرے کمرے میں خوشبو کیسی تھی جو ہر طرف پھیلی تھی۔۔۔
اور میرے منہ میں اس پانی کا ذائقہ موجود تھا جبکہ پانی کا تو کوئی ذائقہ نہیں ہوتا۔۔۔
میرے حواس بحال ہوئے تو میں نے اپنے ہاتھوں کو دیکھا۔۔۔۔
وہ میدان وہ پالانوں کا ممبر سب کہی نہیں تھا ۔۔
میرا وجود کانپ رہا تھا ۔ ہونٹ کپکپا رہے تھے ۔۔ آنسو تھے جو محبت کا حق ادا کر رہے تھے میرا دل اپنی پوری قوت سے دھڑک رہا تھا کہ شاید ابھی سینے سے باہر نکل آئے ۔۔۔ میں نے اپنے ہاتھوں کو دیکھا۔۔
ہاں یہی ہاتھ تھے جو بلند تھے ۔
میرے کانوں میں ابھی بھی وہ خوبصورت آواز گونج رہی تھی
میں نے آنکھیں بند کی اور بہتے آنسوؤں کے ساتھ اس آواز کے ساتھ ساتھ دہرانے لگی۔۔۔۔۔
من کنت و مولا فھذا علی مولا۔۔۔۔۔