باتیں ایک خوبصورت مشغلہ ہے ایک فن بھی ہے باتیں پیاری میٹھی دلچسپ اور تلخ بھی ہوا کرتی ہیں باتیں لحاظ کے دائرے میں با ادب بھی ہوتی ہیں اور باتیں بے تکلف حد سے باہر بھی ہوا کرتی ہیں اس دنیا میں ہر انسان کسی نہ کسی سے ہر وقت محو گفتگو ہے کوئی کام کی وجہ سے کوئی سفر میں کوئی تفریحی انداز میں کوئی محبوب کے تصور سے باتیں کررہا ہے کوئی اپنی تنہائیوں میں خود سے ہم کلام ہے ان انگنت باتیں کرنے والوں میں شاعر بھی ہیں جو کبھی تخیل کی دنیا میں تتلیوں سے کبھی پھولوں سے کبھی ہواؤں سے کبھی بادلوں سے باتیں کرتے ہیں انہیں میں ایک شاعر ایسے بھی ہیں جو یوں کہتے ہیں
اوروں سے کہتے ڈرتے ہیں
ہم چاند سے باتیں کرتے ہیں
چاند کے ساتھ قدم ملا کر چلنا ،اس کو پکڑنے کے لئے دوڑنا ،چاند کو چھونے کی کوشش کرنا چاند کے ساتھ کھیلنے کی خواہش چاند کو ضد کرکے زمین پر بلانا چاند کو آغوش میں بھرنے کے لئے تلملانا بہت سارے بچوں میں پائی جاتی ہے لیکن ایک شاعر کا چاند سے باتیں کرنا یہ خیال ہی بہت خوبصورت ہے
محترم خالد سعید کا شعری مجموعہ کرناٹک اردو اکیڈمی نے سال 2019 میں شائع کروایا ہے محترم خالد سعید کا تعلق کرناٹک کے قصبہ سگر شریف سے ہے آپ یڈرامی خاندان کے چشم و چراغ ہیں آپ کے والد محترم عبدالغنی اور والدہ محترمہ سارہ بی صاحبہ نے آپ کی بہترین پرورش کی آپ کو بھائی بہنوں سے بے پناہ محبت و شفقت حاصل ہوئی پڑھنے لکھنے کا شوق اور شعری سخن خاندانی ورثہ میں ملا ہے کرناٹک کے مشہور و معروف شاعر محترم حمید الماس مرحوم آپ کے حقیقی چاچا کی نظر عنایت بھی آپ پر بنی رہی ہے آپ کی ہمشیرہ محترمہ حلیمہ فردوس صاحبہ نے بھی آپ کی ادبی و شعری سخن کی آبیاری میں معاون رہی ہیں جب زمین زرخیز ہوتی ہے تو پودے خود بہ خود پھولنے اور پھلنے لگتے ہیں گو کہ آپ آج کل علیل ہیں باوجود اس کے آپ کے بڑے بھائی ڈاکٹر اسلم سعید اور ان کی اہلیہ نے اس مجموعہ کو منظر عام پر لانے کے لئے اپنی پرخلوص خدمات پیش کی ہیں محترم خالد سعید نے انجنیرنک کی تعلیم حاصل کی مگر دلی سکون کی خاطر درس و تدریس کے شعبہ سے وابسطہ رہے “چاند سے باتیں “شعری مجموعہ یا بقول خود محترم خالد سعید کلیات غزلوں اور نظموں کا بے بہا زخیرہ ہے اس مجموعہ میں آپ نے اپنی پہلی کتاب “شب رنگ نمو “کو بھی شامل کرکے قارئین تک پہچادیا ہے آپ کی نظمیں منفرد لب و لہجہ کے ساتھ فن کی گہرائیوں میں ڈوبی ہوئی محسوس ہوتی ہیں ان کی نظموں میں تخیل کی پرواز کے ساتھ ساتھ منظر کشی بھی بہترین انداز میں کی گئی ہے خالد سعید کی حمدیہ نظموں عاجزی انکساری اور بندے کی گڑگڑاہٹ کے ساتھ بہت سارے سوالات بھی گڑمڈ کررہے ہیں بندہ عاجز ہے مجبور ہے مگر خالق نہیں اسی طرح کی حمدیہ نظم “اے خدا” میں وہ زبان سے دئیے جانے زخموں اور اس سے ہونے والے گناہ کو خدا کے سامنے یوں بیان کرتے ہیں اور یوں کہتے کہ
اے خدا
چھین لے گوشت کا لوتھڑا
یا کچل دے اسے اور زخموں سے بھر دے اسے
منہ جو کھولوں تو لفظوں کے بدلے لہو سا ٹپکتا ہے
اے خدا ،مجھ کو گونگا بنا دے ،مجھ کو گونگا بنا اے خدا
خالد سعید کی نظم “شام “ ایک ایسی منفرد نظم ہے جو عورت کے چال ڈھال اور بھر پور سراپے کو ذہین میں رکھتے ہوئے اپنی بات کو کسی انوکھے انداز میں بیان کرتے ہیں خالد سعید کی شاعری میں لفظوں اور لہجوں کا اثر بہت گہرا ہے عام بول چال کی زبان میں کنجی کو چابی کہتے ہیں لیکن کچھ مقامی لوگ چاوی بھی کہتے ہیں اس نظم میں کنجی یا چابی کو اپنے مقامی لب و لہجہ میں پرو کر کچھ اس طرح کہا گئا ہے کہ نظم میں منظر کشی کا لطف دوگنا ہوجاتا ہے
شام
سلونی نازنین
چاویاں ،چاندی کے حلقے میں پرو کر
ناف کے نیچے بندھی
کانجی ورم ساڑیوں کی گہری میریوں میں
چاویوں کا خوشہ اڑوسے
زینہ زینہ
تالاب کے گنجالی گہرے پانی میں
اترتی جارہی ہے
یہ نظم اور اس طرح کی بے شمار نظمیں اس مجموعہ میں شامل ہیں خالد سعید کی نظموں میں عرصہ تہی آفاق ،پیاس آشفتہ سر بھی لاجواب اور بے مثال ہیں رات اور چاندی کا گھنگرو میں سوچ اور جذبات کا ایک دریا موجزن ہے
“رات اور چاندی کا گھنگرو”
اک کبوتر
پاؤں میں چاندی کا گھنگرو باندھ کر
سونی منڈیروں پر
رقص کرتا ہے
گھنگرو بجتا ہے
اور سحر ہوگئی
گھنگرو موسیقی کی علامت کبوتر امن کا پیامبر جیسے استعارات سے نظم میں روحانی کیفیت پیدا ہوتی ہے “نگل جانے کے بعد ،ٹوٹتی پیالیوں کے درمیاں ،شاخ شاخ بوسے بے بصاعتی ،خستگی ،نیند ،شاخ نہال غم ،جدید طرز کی بہترین نظمیں ہیں “لہو زمین کا سہاگ “ (فلک اور زمین کے درمیان ایک مکالمہ ) ہے اس نظم میں آسمان اور زمین کے درمیان گفتگو کا انداز بہت ہی مختلف ہے آسمان زمین کو جھنجھوڑتاہے زمین پر ہونے والے ظلم و زیادتیوں کے بارے میں سوالات کرتا ہے زمین چپ رہتی ہے پھر خاموشی کو توڑ کر چیخ پڑتی ہے اپنا دکھ آسمان کو بتانے لگتی ہے آسمان اس کا خیرخواہ لگتا ہے وہ اپنے دکھوں کو سمیٹ کر دھنک کی طرح آسمان پر پھیل جانا چاہتی ہے شاعر نے اس نظم میں قوس قزح یا دھنک کو خدا کے دستخط کے متشبہ کہہ کر نظم میں جان ڈال دی ہے اس نظم میں منظر کشی کے ساتھ خدا کے دستخط کا استعارہ نظم کو گہرائیوں میں لے جاتا ہے اس مجموعہ میں مختصر اور طویل ترین نظمیں شامل ہیں طویل نظموں میں اتنی طوالت ہے کہ نظم افسانہ کی شکل اختیار کرلیتی ہے یا پھر سوچوں کا ملبہ جو اٹھائے نہ اٹھ سکے جو منفرد اندازمیں لکھی گئی ہیں نظموں کا یہ سرمایہ آنے والی نسلوں میں امید کی جگمگاتی کرنوں کو منورکرئیگا
نظموں کی طرح محترم خالد سعید کی غزلوں میں بے حد روانی ملے گی ان کی غزلوں میں حالات کو پڑھنے دیکھنے سمجھنے اور محسوس کرنے والی زندگی ملے گی تخلیق کار کے پاس تخیل سے زیادہ قریب ترین حقیقت پسندی شامل ہے تخلیل کی اڑان کے لئے حقیقت کی زمین پر رہنا بھی بہت ضروری ہے اور شاعر کی ان دونوں پر گرفت بہت مضبوط ہے ان کے ہر ایک شعر میں سوچ اور فکر کا نیا پہلوعیاں ہوتا ہے غزلوں کا اسلوب بہت سادہ اور سیلیس ہے آپ کی غزلوں میں تلخی بھی ہے نرمی بھی ہے زندگی کے نشیب و فراز سے گزرتے ہوئےلمحے بھی ہیں اور فرصت کے اوقات میں دل کی باتیں چاند سے کہتے ہوئے جذبات بھی ہیں
اوروں سے کہتے ڈرتے ہیں
ہم چاند سے باتیں کرتے ہیں
کچھ دل نہیں تیرا بھر جائیں
یہ زخم ہیں بھرتے بھرتے ہیں
آپ کی غزلوں میں استعارات کی کمی نہیں ہے جو بےحد خوبصورت انداز میں استعمال کئے گئے ہیں
نمونہ کلام کےلئے ایک غزل پیش کرتی ہوں
ہواؤں کو اذن سفر کس لئے
دئیے ہیں پرندوں کو پر کس لئے
ہے بستر زمین اور چادر فلک
یہ دریاں یہ دیوار و در کس لئے
عطا کی ہے ویرانی دل کو تو پھر
زمانے میں ہر سو کھنڈر کس لئے
فلک پر ستارہ پلک پر لہو
جلے جاتے ہیں بے خبر کس لئے
ابھی تک سمجھنے سے قاصر ہے دل
ادا چیز کیا ہے نظر کس لئے
اس غزل کی طرح کئی اور غزلیں اس کلیات میں شامل ہیں کچھ اور مقطعے میں یہاں لکھنا اپنا فرض سمجھتی ہوں تاکہ شاعرانہ صلاحیتوں کی بھر پور تائید ہوسکے
یاد پھر اگلے زمانے آئے
دل کا ہر زخم جلانے آئے
سچ بولنے کا اک ہمیں سودا بھی بہت تھا
سو دل ترے دربار میں تنہا بھی بہت تھا
اس پر روشن ہوئی بات بسرتا کیسے
میں کہ آئینہ سا ٹہرا تھا مکرتا کیسے
اپنا سراپا ڈھونڈرہے ہیں برسوں سے
اک آئینہ ڈھونڈ رہے ہیں برسوں سے
مرحوم خالد سعید کی غزلیں ان کی شاعری عہد حاضر کا مکمل آیئنہ دار ہے اور اس دور کی مکمل عکاسی کرتی ہے شاعری کی زبان میں آپ کو بہت سارے موضوعات پر کھل کر بات کرنے کا فن قدرت نے بخشا ہے شاعر جو باتیں کرنا یا کہنا چاہتے تھے وہ شاعری کے ذریعہ قارئین تک پہنچا دینے میں ایک حد تک کامیاب ہوئے ہیں ۔