Maqalat

کسی بھی ملازمت کی ایک حد ہوتی ہے۔ مُدّت ِ ملازمت مکمل کر کے با عزّت سبکدوش ہونے سے بڑا کوئی دوسرااعزاز نہیں ہو سکتا۔خوش بخت لوگوں کو ہی یہ وقار اور عزّت آمیز لمحہ میسّر ہوتا ہے۔یہ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندے پر احسان ِ عظیم اور بے پناہ اکرام ہے کہ اچھّی صحّت اور خوشگوار ارتباط کے مابین خورشید ملک صاحب کو مدّتِ ملازمت کی تکمیل کا موقعہ پرورگار نے بخشا۔ہر چند کہ خورشید ملک صاحب کے ساتھ کام کرنے کا طویل عرصہ میسر نہیں ہوا تاہم اتنا وقت ضرور ملا کہ کسی کو قاعدے سے سمجھا ، پرکھا جا سکے۔خور شیدملک صاحب کے ساتھ کام کرتے ہوئے ہم کبھی بھی کسی قسم کی گھبراہٹ یا غم انگیزاحساسات سے دوچار نہیں ہوئے۔خورشید صاحب باغ و بہار قسم کے انسان ہیں۔ان سے ہماری رفاقت کے دوران کبھی ان کے چہرے پر ژو لیدَگی اور عادت میں تغافل شعاری نظر نہیں آئی۔ہشاش بشاش ، ہنس مکھ ، ملنسار، غمگسار ، مزاج میں ظرافت اور بذلہ سنجی ان کی شخصیت کا حصہ ہیں۔
فیس بُک پر روزانہ ’’ بابا جی ‘ِِکے پردے میں پژمردہ انسان کو ’’ آب ِ بقا ‘‘ پلانے کا کام کر رہے ہیں۔ایک خاص نکتے کی بات یہ ہے کہ خوش خصال اور خوش طینت کا ہی اثر ہے کہ آّپ کی ذات میں غرور ور تکبّر کا شائبہ تک نظر نہیں آیا ۔ آپ ہمارے کمرے میں بلا جھجک آکر ہم سب کے ساتھ بیٹھ کر مِنٹوں باتیں کرتے تھے۔اپنے کمرے کی طرف آتا ان کو دیکھ کر ایسا لگتا جیسے زعفران کا کھیت دیکھ لیا ہو۔ ہماری بے تکلفانہ گفتگو دیکھ کر دیگر لوگ بھی ان کی ذات سے متاثر ہوکر ہم سے کہتے تھے کہ خورشید ملک سر کا سلوک بہت اچھا ہے۔
یاد ہم کو دعاؤ ں میں رکھیے
اپنے دل کی صداؤں میں رکھیے
آپ کو ہم نہ بھولیں گے ہرگز
خود کو بھی با وفاؤں میں رکھیے
آپ کا پورا نام خورشید احمد ملک ہے۔ آپ کی پیدائش یکم جنوری ۱۹۶۴ میں بہار کے ضلع گیا کے ڈھوڈھراگاؤں میں ہوئی ہے۔ابتدائی تعلیم گاؤں کے قصبے کے اسکول میں ہوئی۔بارہ برس کی عمر میں اپنے بہنوئی محترم محفوظ الر حمٰن صاحب کی سرسرستی میں کلکتہ آگئے۔والد محترم مرحوم ادریس ملک صاحب کے پاس نصابی سند نہیں تھی لیکن ادب کے عمیق مطالعے کے شوق کے سبب وہ اپنی ذاتی لائبریری میںکئی نایاب کتابوں کے ساتھ اقبالیات کو بھی اپنی خاص نگرانی میں رکھتے تھے۔والد محترم کا انتقال ۱۹۸۶ میں ہوا۔
تواریخ کے طالب ِ علم رہے لیکن بعد میںکلکتہ یونیورسٹی سے اردو میں ایم ۔ اے کا ایکزام پاس کیا۔ اردو سے ایم ۔ اے کرنے کے بعد جب ان کو کلیم عاجز کا کلام پڑھنے کا اتفاق ہوا تو آپ کے اندر شاعری سے ۔ روزانہ ایک شعر فیس پر خاص پابندی کے ساتھ لکھتے ہیں۔ ان کی غزلوں کا مجموعہ ’’ احساس کا روشندان‘‘ چند روز میں منظر عام پر آرہا ہے۔شگف پیدا ہوا۔خورشید ملک صاحب کی پہلی پوسٹنگ پریس انفارمیشن بیورو دہلی ، جنوری ۱۹۸۷ میں ہوئی۔ کلکتہ ، دہلی ، میگھالیہ کے شیلانگ ، ارونا چل پردیش کے ایٹا نگر وغیرہ مقامات پر ٹرانسفر ہوتا رہا۔جن محکموں میں اپنی خدمات پیش کرنے کا شرف میسّر ہوا ، وہ ہیں
Press Information Bureau/DAVP/All India Radio/Doordarshan/Publications Division/ DPR,Defence/Central Bureau of Communications. (Independently handled publicity of Civil Aviation ministry and power ministry) ۔
آپ دوردرشن کولکاتا میں سب سے پہلے ۲۰۱۱ ، پھر ۲۰۱۳ اور پھرآخری مرتبہ ۲۷ جولائی ۲۰۲۳ میں دوردرشن نیوز کے سربراہ کے طور پر چارج سنبھالا۔ تشریف لائے۔ ؤپ کی نگرانی میں کام کر کے ہمیں بہت اچھا لگا۔ آپ کی بے تکلفانہ اور ظریفانہ رفاقت نے ہمیں بہت محظوظ اور مسرور بھی کیا۔آپ ۳۷ برس تک ملازمت کرتے ہوئے ۳۱ دسمبر ۲۰۲۳ کو اپنی ملازمت سے سبکدوش ہوئے۔بشیر بدر کے اشعار میں معمولی ترمیم کے ساتھ خورشید ملک صاحب کو الوداع کہنے کی ہم جسارت کریں گے کہ
تمہیں ضرور کوئی چاہتوں سے دیکھے گا
مگر وہ آنکھیں ہماری کہاں سے لائے گا
اگر تلاش کرو کوئی مِل ہی جائے گا
مگر ہماری طرح کون تجھ کو چاہے گا
راقم : احمد وکیل علیمی، سابق ہیڈ ٹیچر کولکاتا میونسپل کارپوریشن اسکول

یوں تو اردو ادب میں بہت سارے اداباء و شعراء پیدا ہوئے ہیں ۔لیکن ہر کسی کو وہ مقام و مرتبہ حاصل نہیں ہوا ،جو علامہ اقبا ل کو حاصل ہوا ۔بر صغیر کی ایک مایہ ناز شخصیت ’’علامہ اقبال‘‘ کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے ۔ ان کی زندگی ہی میں شہرت کا یہ عالم تھا کہ جس وقت ملک کی سرحد کو عبور کرکے عالمی سطح پر اپنی پہچان بنا رہی تھی۔ تواسی وقت خود ان پر اپنے ملک میں سطحی و فاسق قسم کے الزام لگائے جارہے تھے ۔ ایک طرف اقبال شناسی ،اقبال فہمی کی طرف گامزن ہوکر اقبالیات کے نئے شعبے قائم کر رہی تھی ۔ تو دوسری طرف اقبال شکنی ، اقبال دشمنی کا بازار گرم تھا ۔ایسے حالات میں اقبال پر لگائے گئے الزامات کو ثبوت کے ساتھ مٹانے اور منکرین اقبال کا دفاع کرنے والے کسی رہبر کی اشد ضرورت تھی۔اس نیک کام کو سر انجام دینے والا نہایت معتبر نام پروفیسر ڈاکٹر ایوب صابر کا ہے۔ جنہوں نے اقبال پر لگائے گئے تمام الزامات کابڑی خوب صورتی کے ساتھ دفع کیا ہے ۔
پروفیسر ڈاکٹر ایوب صابردور جدید کے قد آور محقق، ادیب اسکالر اور اقبال شناسوں میں شمار کئے جاتے ہیں۔ مطالعہ کرنے سے بات واضح ہوتی ہے کہ وہ’ ’اقبال دشمنی ایک مطالعہ‘‘ کے ذریعے سے اقبال دوستی کے دروازے میں داخل ہوکر اقبال فہمی کی منزل تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے ہیں ۔
پروفیسر ایوب صابر2 جنوری ۱۹۴۰ء ؁کو پاکستان کے ضلع ایبٹ آباد کے ایک گاؤں موہری میں پیدا ہوئے۔ ان کی ابتدائی اور ثانوی تعلیم پاکستان کے مختلف شہروں میں ہوئی ۔۱۹۶۳ء؁ میں آپ نے گورنمنٹ کالج ایبٹ آباد میں بطور لکچرار تدریسی زندگی کی شروعات کی۔پروفیسر ایوب صابر کی زندگی کا محور ’’اردو زبان و ادب اور اقبالیات‘‘ ہے۔ اقبالیات سے ان کے شغف کا مظاہرہ ان کے ذریعہ سر انجام دئے گئے معیاری اور معتبر کارناموں سے ہوتا ہے۔
پروفیسر ایوب صابر نے اقبال شناسی کا آغاز ۱۹۶۲ء؁ سے ہوتا ہے۔ ایم۔ اے کے دوران انہوں نے بہ عنوان ’’ پیام اقبال کی اساس‘‘ ایک مضمون تحریر کیا ۔جو کہ مجلہ ’’کاغان‘‘ میں شائع ہوا۔اس کے بعد ایم۔ اے فائنل میں اقبال پر ہی دوسرا مضمون ’’وحدت وجود اور اقبال‘‘کے عنوان سے شائع کرایا ۔ ۱۹۹۱ ء؁میں عنوان ’’اقبال پر معاندانہ کتب کا جائزہ‘‘ جیسے معیاری موضوع پر ایم ،فل کا مقالہ لکھا۔اس کے بعدا نہوں نے ’’اقبال کی شخصیت اور فکر و فن پر اعتراضات‘‘کے موضوع پر پی۔ ایچ۔ ڈی کا تحقیقی مقالہ تحریر کیا۔ چونکہ ان کی ادبی زندگی کا آغاز ۱۹۶۲ء؁ یعنی دوران طالب علمی سے ہوگیا تھا۔ اس لئے تعلیم مکمل کرنے کے بعد اس سلسلے کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے انہوںنے تقریباً چودہ (۱۴) کتابیں تصنیف و تالیف کیں۔ یہاں اقبالیات سے متعلق کتابوں کا ذکر ناگزیر ہے جن کی تفصیل اسی طرح ہے۔
’’ اقبال دشمنی ایک مطالعہ‘‘ (۱۹۹۳)۔’’ معترضین اقبال‘‘(۲۰۰۳( ۔’’اقبال کی شخصیت پر اعتراضات کا جائزہ‘‘ (۲۰۰۳) ۔ ’’اقبال کا اردو کلام و زبان و بیان کے چند مباحث‘‘ (۲۰۰۳)۔اس کتاب کا تیسرا ایڈیشن ۲۰۱۰ء؁ میں بعنوان ’’کلام اقبال پر فنی اعتراضات ایک جائزہ‘‘ شائع ہوا۔ ’’اقبال کی فکری تشکیل: اعتراضات اور تاویلات‘‘۔ ’’تصور پاکستان علامہ اقبال پر اعتراضات کا جائزہ‘‘ ۲۰۰۴ء؁۔’’ اقبال کے فہم اسلام پر اعتراضات‘‘ ۲۰۱۶ء؁۔’’ اقبال کی شخصیت اور فکر و فن پر اعتراضات‘‘ ۲۰۱۸ء؁ (تین جلدیں) ۔علاوہ ازیں ’’علامہ اقبال کا تصور اجتہاد‘‘ (مجموعہ مقالات) اس کو محمد سہیل عمر کے ساتھ مرتب کیا۔
اقبال شناسی کے آگے کی منزل اقبال فہمی ہے۔ اور یہاں تک کم لوگ پہنچ پاتے ہیں ۔کیوں کہ اس منزل تک پہنچنے میں بہت مشکل دور سے گزرنا پڑتاہے۔پروفیسر ایوب صابر نے اس منزل کو پانے کے لئے اپنی پروفیسری کی ملازمت سے چار برس قبل سبکدوشی لے لی۔ اور اس کے بعد پورے انہماک کے ساتھ اقبال پر لگ گئے۔ تمام طرح کے الزامات و اعتراضات کا مدلل بحث کے ساتھ مع حوالہ جواب دیا اور ضرورت کے مطابق انھیں رد بھی کیا۔
اقبال پر اعتراضات کا سلسلہ طویل عرصہ پر پھیلا ہے ۔کسی کو ان کے فارسی آمیز کلام سے دقت تھی تو کوئی خالص فارسی کلام سے نالاں تھا ۔کسی کو ان کے یہاں قواعد کا نقص نظر آتا تھا۔ تو کسی نے اقبال کی شخصیت کو ہدف ملامت بنایا۔ اقبال اپنی زندگی میں تمام لوگوں کو جواب دیتے رہے ۔باوجود اس کے مخالفین کا کاروبار روز بروز بڑھتا گیا۔ جس کا مضر نتیجہ یہ ہوا کہ بڑے بڑے اقبال شناس بھی تذبذب کا شکار ہوگئے۔ لہٰذا ایسے میں کسی ایسے ماہر اقبال کی ازحد ضرورت تھی۔ جو کہ پوری یکسوئی اور توجہ سے اس کام کو سر انجام دیئے۔ کام بہت مشکل ترین اور توجہ طلب تھا۔ پروفیسر ایوب صابرنے بصد خلوص اس ذمہ داری کا بیڑا اٹھانے کا فیصلہ لیا ۔اور اس کام کو زندگی کے عزیز ترین لمحوں، روز و شب اور برسوں کی قربانی دے کر سر انجام دیا۔ جس کے نتیجے میں آج ہمارے سامنے اقبال دشمنی اور اعتراضات کی رد میں صابر کی تقریباً نو (۹) کتابیں موجود ہیں۔
’’اقبال دشمنی ایک مطالعہ‘‘ اقبالیات پر ایوب صابری کی پہلی کتاب ہے۔ یہ تین حصوں میں منقسم ہے۔ جس میں انھوں نے اقبال پر ہونے والے تمام اعتراضات کو رد کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ حصہ اول میں ’اقبال کی شخصیت پر معاندانہ کتب کا جائزہ لیا ہے‘ ۔دوم میں اقبال کی شاعری پر معاندانہ کتب اور حصہ سوم میں اقبال کے افکار پر معاندانہ کتب کا جائزہ لیا گیا ہے ۔ انھوں نے اقبال دشمنی پر مبنی کتابوں اور اقبال مخالف لٹریچر کی چھان بین کرکے اقبال دشمنی کے محرکات، رحجانات اور رویوں کا وسیع تر تناظر میں جائزہ لیا ہے۔ انھوں نے اپنے ایم۔ فل کے مقالے ’اقبال پر معاندانہ کتب کا جائزہ‘ کو نظر ثانی کرنے کے بعد ’’اقبال دشمنی ایک مطالعہ‘‘ کے عنوان سے شائع کرایا۔ کتاب کے پیش لفظ میں رد اقبال میں لکھی گئی کتابوں کی تفصیل بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’خدو خال اقبال ‘‘ میں اقبال پر اعتراضات کی بوچھار کی گئی ہے ۔’’علامہ اقبال اور ان کی پہلی بیوی ‘‘میں اقبال کو ظالم اور غاصب ظاہر کیا گیا ہے۔ یہ دونوں کتابیں اقبال کی شخصیت کو منہدم کرنے والی ہیں۔ ’’اقبال کا شاعرانہ زوال‘‘ میں اس طرح کے اعتراضات جمع ہوگئے ہیں ۔جو اہل زبان حضرات عام طور پر کیا کرتے تھے۔ ’’مثنوی ’’اسرا لا سرار‘‘ اقبال کی مثنوی ’’اسرار خودی‘‘ کی تردید میں لکھی گئی ہے ۔یہ روایتی عجمی تصوف کی ترجمان ہے۔ مجنوں گورکھپوری کی کتاب ’’اقبال کا اجمالی تبصرہ‘‘ اشتراکی اہل قلم کی نمائندگی کرتی ہے۔ بعض اشتراکیوں نے عجیب و غریب انداز سے اقبال کو منہدم کرنا چاہا ہے۔ ان میں علی عباس جلال پوری اور صائب عاصمی شامل ہیں۔۔ صائب عاصمی نے ’’اقبال قلندر نہیں تھا‘‘ میں اقبال کو معزول کرکے قلندر کے مقام پر کارل مارکس کو فائز کیا ہے۔ مکائد اقبال، خارمانہ تبدیلیاں ‘‘اور’’ مودبانہ تبدیلیاں‘‘ کتابچے ہیں۔ ان کا مختصر جائزہ اس لئے شامل کیا ہے ۔تاکہ ایک تنگ نظر اور فرقہ پرست مولوی کا پورا کام سامنے آجائے۔‘‘ ۱۳۵؎
صابر، پروفیسر ایوب، ۲۰۰۴ء؁، معترضین اقبال، نئی دلی: انٹرنیشنل بک ہائوس۔ ص ۵
پروفیسر صابرایوب نے مذہبی فرقہ وارانہ تعصب رکھنے والے،سیاسی، نظریاتی، مخالفین، علاقائی اور انسانی تعصب رکھنے والے لوگوں کو اقبال دشمن کہا ہے۔ اور ان کوشمشیر بے نیام بن کر دندان شکن جواب دیاہے۔ مخالفین اقبال کی باتوں کو رد کرنے والے اقبال شناسوں کو سراہتے ہوئے پروفیسر ڈاکٹر ایوب صابرایک جگہ پر لکھتے ہیں:
’’اس ضمن میں پروفیسر اسلوب احمد انصاری ‘‘اور پروفیسر عبدالمغنی‘‘ کی کاوشیں خاص طور پر اہم اور قابل تحسین ہیں۔ اسلوب صاحب کے اپنے مضامین اور ان کے علمی مجلے ’’نقد و نظر‘‘ نے بھارت میں تنقید اقبال کی راست روی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ موخر الذکر نے تو کلیم الدین احمد کے جواب میں پوری کتاب لکھ کر گویا دفاع اقبال کا حق ادا کردیا ہے۔‘‘
صابر،
پروفیسر ایوب، طبع اول 1993اقبال دشمنی ایک مطالعہ لاہور جنگ پبلشرز ص: ۵
اقبال کی ذات اور ان کے کلام پر جواتہام باندھے گئے ، جس طرح ان کا تمسخر اڑایا گیا ۔ان کے سبب پروفیسر ایوب صابر نے ذاتی طور پرذہنی اور روحانی کرب کو محسوس کیا۔ ان کی شفاف ذہنیت اور وضع داری سے یہ کیسے ممکن ہو سکتا تھا کہ وہ خاموش رہ جاتے ۔لیکن معاندانہ اقبال کا دفاع کرنا جتنا ضروری تھا ،اتنا ہی وقت اور توجہ طلب بھی تھا ۔لیکن اگر انسان میں عزم وحوصلہ ہو تو کچھ بھی ناممکن نہیںہے۔ اعتراضات کا رد کرنا گویا کسی سے دشمنی مول لینا ہو۔ا اس لئے واقعی یہ کام مشکل تھا لیکن پروفیسر ایوب صابر نے اعتراض اقبال پر مبنی پورا لٹریچر کھنگال کر اس کی بکھیا بھی ادھیڑ دی۔ ایک دو نہیں بلکہ پوری نو کتابیں لکھ کر ثابت کردیا کہ کوئی بھی کام ناممکن نہیں۔
اقبال پر اعتراضات کی تعداد اتنی زیادہ بڑھ گئی تھی۔ کہ بڑے بڑے اقبال شناس بھی متاثر ہونے لگے تھے۔ پروفیسر ایوب صابر نے اس ضمن میں بے باک قلم کاری کی ۔اور مخالفین کے دماغ درست کیے۔ ان کی اس کاوش نے اقبال مخالفین کو کٹہھرے میں لا کھڑا کیا ۔ جس کے سبب معتبر اقبال شناسوںکا اقبال کے متعلق کانسپٹ کلیئر ہوا ۔
’ ’تنقید زندگی کے لیے اتنی ہی ناگزیر ہے جتنی کے سانس ‘ ‘
حوالہ ۔
ٹی۔ایس ۔ایلیٹ کے انداز میں اگر کہا جائے کہ ’’معترضین اقبال کی رد کرنا اتنا ہی ناگزیرہے جتنی کے سانس ‘‘‘تو بے جا نہ ہوگا۔معترضین اقبال کے متعلق پروفیسر ایوب صابر نے جو نکتہ اخذ کیا ہے و ہ اس طرح ہے:
وہ لکھتے ہیں ’’ایک اور بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اقبال پر لکھنے والے ان کے ارادت مند مخالفین اقبال کی مہم جوئی سے اثر قبول کرتے رہے ہیں،۔چنانچہ بعض غلط فہمیاں اقبالیات کے طلبہ ہی میں نہیں اساتذہ میں بھی عام ہیں۔ اور بعض ’’معتبر اقبال شناس‘‘ بھی ان کا شکار ہیں ۔ اگرچہ مخالفین اقبال میں سے جو شدت پسند ہیں وہ تلملا کر ردِ عمل ظاہر کریں گے۔ لیکن ان کے غبارے سے ہوا نکل چکی ہے۔ اور امید کی جاسکتی ہے کہ علامہ اقبال پر لکھنے والے آئندہ مخالفین اقبال کے پروپیگنڈے سے متاثر نہیں ہوں گے۔ ماہرین اقبال ہی اگر اقبال کی عمدہ و اعلیٰ شخصیت کا ادراک اور فکر اقبال کی صحت و عظمت پر اعتماد نہیں کریں گے ۔تو اقبال کی انسانی بصیرت کیوں کر بروئے کار آئے گی‘‘
صابر، پروفیسر ایوب، ۲۰۰۴ء؁۔ معترضین اقبال، نئی دہلی: انٹرنیشنل بک ہائوس، ص ۱۹
واقعی پروفیسر ڈاکٹر ایوب صابر کی کتابوں کا مطالعہ کرنے سے آنکھیں کھل جاتی ہیں۔ انھوں نے معتبر حوالوں کے ساتھ دودھ سے پانی الگ کر دیا ہے۔ اقبال کی شخصیت کے آگے مخالفین اقبال بونے نظر آتے ہیں ۔ ان کے کارنامے کے سبب مخالفین اقبال اپنی خطا پر نادم بھی ہوں گے اور سامنا کرنے سے گریز بھی کریں گے ۔پروفیسر ایوب صابر کے قلم نے اقبال کی شخصی ،فکری فنّی خصوصیات کو واضح کرکے انہیں مزید معتبر اور مستند بنا دیا ہے۔
پروفیسر ایوب صابر نے اس کتاب میں اہل زبان، روایتی عجمی تصوف کے حامی، مستشرقین، ہندی قوم پرست مسلمان، تنگ نظر اور فرقہ پرست مولوی، اشتراکی اور دہریے، حاسدین ،قادیانی، قدیمی اور جدیدی ا،ور متفرق عناوین کے تحت معترضین اقبال کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ لیا ہے ۔ساتھ ہی حسب ضرورت ان کے اعتراضات پر رد عمل ظاہر کیا ہے۔ ایک جگہ پر پروفیسر صابراقبال کے تصور تصوف کے متعلق یوں رقم طراز ہیں :
’’تصوف تعلیمات اقبال میں رچا بسا ہے۔ لیکن آنکھیں بند کرکے، تصوف میں شامل غیر اسلامی عناصر کو وہ صرف قبول ہی نہیں کرتے بلکہ عملی استدلال سے ان کی تردید کرتے ہیں … اقبال ایسے تصوف کے خلاف ہیں جو عوام کی قوت عمل کو ضعف کرتا ہے۔ حقائق سے آنکھیں بند کرتا ہے اور عوام کو توہمات میں مبتلا کرتا ہے ۔ان کی فقر کا سفینہ ’’طوفانی‘‘ ہے۔ وہ ’’سوز مشتاقی‘‘ چاہتے ہیں نہ کہ ’’فسانہ ہائے کرامات۔‘‘
صابر، پروفیسر ایوب۔ ۲۰۰۴ء؁۔ معترضین اقبال، نئی دہلی: انٹرنیشنل بک ہائوس، ص ۱۴ پروفیسر ایوب صابر کی تنقید گہرا تحقیقی پہلو لئے ہوتی ہے۔ وہ جس موضوع پر بحث کرتے ہیں۔ اس کی تہہ در تہہ کھولتے ہوئے حقیقت تک پہنچنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ تصوف کے تعلق سے اقبال کے نظریہ سے آپ نے بالکل درست نتائج نکالیں ہیں۔کلام اقبال کی ورق گردانی کرنے پر کہیں بھی بے عمل ہونے کی تعلیم نہیں ملتی۔
پروفیسر ڈاکٹر ایوب صابر نے اپنی کتاب ’’اقبال کے فہم اسلام پر اعتراضات‘‘،میں خطبات پر اعتراضات، تصور اجتہاد پر اعتراضات، جمہوریت کے ضمن میں اعتراضات، غیر اسلامی عقائد رحجانات کا الزام، معرکۂ اسرار خودی جیسے اہم موضوع پر لکھ کر اقبال فہمی کی قابل تحسین مثال پیش کی ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر ایوب صابر نے اقبال پر مخالفین کے ذریعہ باندھے گئے ہر اتہام کا دفاع کیا ۔ انہوںنے اس کام کے لئے اپنی زندگی کے اہم ترین لمحات کو اقبال شناسی کے لئے وقف کر دیا ۔ انہوں نے اقبال پر ایک ضخیم کتاب بعنوان ’اقبال کی شخصیت اور فکر و فن پر اعتراضات ایک مطالعہ‘‘ ۲۰۱۸ء؁ مین لکھی۔ اس کام کے لئے ملازمت سے قبل از وقت استعفا دے کر کتاب کی تصنیف کے لئے کام شروع کیا ۔یہ ان کی اقبال سے شدید لگاؤ کی مثال ہے۔تقریباً 20 برس کی محنت شاقہ کے بعد کتاب مکمل ہوئی ۔مذکورہ کتاب ۲۳۳ صفحات پر پھیلی ہوئی ہے۔ جتنی ضخیم ہے اتنی ہی معتبر اور قابل داد ہے۔ اس میں مصنف نے اقبال کے اعتراضات کے حوالے سے کوئی بھی پہلو تشنہ نہیں چھوڑا ہے۔ جو بھی موضوع اٹھایا اس کے اصل تک پہنچ کر قارئین کو حقیقت سے روشناس کرنے کی کوشش میں کامیاب ہوتے نظر آتے ہیں۔
اقبال کی شخصیت اور فکر و فن پر اعتراضات: ایک مطالعہ‘‘ جلد اول گیارہ ابواب پر مشتمل ہے۔ اس میں پروفیسر ڈاکٹر ایوب صابرنے اہل زبان، روایتی عجمی تصوف کے حامی، مستشرقین، مسلکی شدت پسند مولوی، اشتراکی اور دہر یے، حاسدین اور طالبان شہرت، قادیانی، قدامت پرست اور مغرب پرست وغیرہ عناوین کے ضمن میں تنقید اقبال کا گہرائی سے جائزہ لیا ہے۔ یوں تو اقبال پر متعدد معیاری تحقیقی وتنقیدی کتابیں لکھی گئی ہیں۔،لیکن پروفیسر ایوب صابر کی مذکورہ کتاب ثانی نہیںرکھتی ۔ پروفیسر ایوب صابرایک جگہ پر مقام اقبال کا تعین کرتے ہوئے یوں رقم طراز ہیں:
’’عصر حاضر میں اقبال کا مقام منفرد اور بہت بلند ہے۔ جن افراد اور گروہوں نے اقبال کو منہدم کرنے پر ذہنی توانائی صرف کی ہیں انھوں نے نہ صرف اپنے وقت اور اپنے دل و دماغ کو ضائع کیا بلکہ انسانیت کی بھی کوئی خدمت نہیں کی۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ حقیقی انسانی اقدار کو نقصان پہنچانے کی کوشش کے مرتکب ہوئے ہیں۔‘
صابر، پروفیسر ایوب ۲۰۱۸ء؁۔ اقبال کی شخصیت اور فکر و فن پر اعتراضات ایک مطالعہ ۔جلد اول۔ ص: ۳۰
واقعی اقبال مشرق کا وہ بلند ستارہ ہے۔ جس کی چمک مغرب تک پہنچی مخالفین اقبال ان کی چمک کو منہدم کرنا چاہتے تھے۔ لیکن پروفیسرایوب صابر جیسے اقبال فہم یہ کیسے گوارا کرسکتے تھے؟ آخر انھوں نے مخالفین ومعترضین کابے باکی سے جواب دے کر ان تمام کے تمام کا دفاع کرکے مشرق کے ستارے کو مزید چمک دار بنا دیا۔ انھوں نے اقبال پر عائد تمام الزامات کو مدلل بحث کے ساتھ رد کیاہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ جتنی بڑی شخصیت ہوتی ہے۔ امتحان بھی اتنے ہی بڑے ہوتے ہیں۔ ایسا ہی کچھ اقبال کے ساتھ ہوا۔ ان پر طرح طرح کے الزامات عائد کئے گئے۔ ان کے خاندان و نسل پر انگشت نمائی کی گئی۔ انھیں شرابی، عشق باز، انگریزوں کا آلۂ کار، قوم پرست، وطن بیزار اور قول و فعل میں تضاد کرنے والا جیسے غیر مہذب الزامات لگائے گئے۔ جن کا پروفیسر ایوب صابرنے مدلل بحث کے ساتھ ابطال کیا ہے۔ اقبال شکنی کا کام تسلسل سے جاری رہا ۔ نتیجتاً بڑے بڑے اقبال دوست پر بھی اس کا مضر اثر پڑا ۔اور وہ اس غلط فہمی میں مبتلا ہو گئے کہ اقبال نشہ آورمنشیات کا شوق رکھتے تھے۔اقبال پر شراب نوشی کا الزام لگانے والوں کو جواب دیتے ہوئے کئی واقعات اور احباب کی آراء کو بروے کار لاتے ہوئے پروفیسر ایوب صابر لکھتے ہیں:
’’جو صاحبان شراب پیتے ہیں، ان کے بارے میں پکے ثبوت اور وافر شواہد مل جاتے ہیں۔ غالب، فیض اور جوش کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ علامہ اقبال کے بارے میں نہ صرف یہ کہ کوئی ثبوت نہیں ملتا ۔بلکہ واقفانِ حال اور ان کے احباب نے اس الزام کی صاف صاف تردید کی ہے۔ مولوی احمد دین اور نواب ذو الفقار علی خاں نے اقبال پر جو کچھ لکھا ہے۔ اس میں شراب نوشی کا ذکر نہیں۔ سردار امرائو سنگھ ٹیرگل اور خواجہ عبدالوحید شراب نوشی کے الزام کی تردید کرتے ہیں۔ اقبال کی ایک بھتیجی کا حلفیہ بیاں ہے کہ ایک ہی گھر میں رہتے ہوئے۔ان کے مشاہدے میں کبھی کوئی ایسا واقعہ نہیں آیا جس سے یہ شبہ ہوسکتا کہ اقبال شراب کا شوق کرتے تھے۔ شیخ اعجاز لکھتے ہیں ’’میں اپنے علم اور مشاہدے کی بنا پر وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ اقبال پرمے نوشی کا الزام ایک بہتان ہے۔
صابر، پروفیسر ایوب ۲۰۱۸ء؁۔ اقبال کی شخصیت اور فکر و فن پر اعتراضات ایک مطالعہ(جلداول)لاہور۔ ص: ۹
درج بالا حوالوں کے علاوہ اس سے متعلق پروفیسر ایوب صابر مزید شواہد دیتے ہوئے حجاب امتیاز علی تاج کا چشم دید واقعہ بیان کرتے ہیں۔جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اقبال شراب نوشی نہیں کرتے تھے۔ واقعہ کچھ اس طرح ہے ۔ اپنے خطبات کے سلسلے میںعلامہ اقبال مدراس گئے تھے ۔وہاں ان کا سب سے بڑے ہوٹل میں استقبال کیا گیا۔ملک اور بیرون ملک کی بڑی ہستیاں موجود تھیں۔شراب پیش کی گئی جس پر علامہ اقبال نے کہاکہ میں بالکل نہیںپیتا۔میں نے کبھی انگلستان میں بھی شراب نہیں لی۔ یہ سن کر آس پاس بیٹھے لوگوں نے خوشی سے تالیاں بجائیں۔
مذکورہ تمام ثبوتوں کے بعد شک کی گنجائش نہیں رہ جاتی اور یہ ثبوت اس بات کے ضامن ہیں کہ اقبال نے کبھی شراب نہیں پی۔ اقبال کے شراب نہ پینے کا اندازہ محض اس بات سے لگایا جا سکتا ہے ۔کہ وہ تلاوت قرآن کرتے وقت زاروقطار رویا کرتے تھے۔ ان کے آنسؤں سے تر قرآن آج بھی محفوظ ہے ۔ایک معمولی سے معمولی انسان بھی وثوق سے کہہ سکتا ہے کہ جس کے اندر خوف خدا اتنی شدّت سے ہو وہ اللہ کی حکم عدولی کبھی نہیں کر سکتا ہے۔
عبدالمجید سالک کی کتاب ’ذکر اقبال‘‘ اقبالیاتی ادب میں اہمیت کی حامل ہے۔ باوجود اس کے انھوں نے اقبال پر فرضی قصے گڑھ کرکئی طرح کے الزام لگائے ہیں ۔مخالفین اقبال نے تو اقبال شکنی میں ہر وہ دعویٰ کیا ۔جو حقائق کے برخلاف تھا ۔اقبال کورومان زدہ ، ان کی فکر و عمل میں تضاد ، بے عملی کی طرف راغب کرنے والا ، بد اعمال اور مایوس کن انسان جیسی بے دریغ باتیں اقبال سے منسوب کیںہیں۔جب کہ حقیقت یہ ہے کہ تباہ حال ،مایوس اور پستی کی طرف گامزن قوم کے دل و دماغ میں یقین و امید کی روشنی پیدا کرنے کے لئے اقبال نے زندگی کے آخری سانس تک قوم کی خدمت کی ۔بیماری کے باوجود، قوم اور نسل انسانی کی رہنمائی کرتے رہے۔ ان کے آخری دنوں کی نظم حضرت انسان اس بات کی ضامن ہے۔ آپ خود اندازہ لگائیںایسا انسان مایوسی کا شکار کیسے ہوسکتا ہے ؟ لہذا یہ کہنا کہ ان پر ناامیدی کا گہرا سایہ تھا محض غلط بیانی ہے ۔
اقبال کو جب سر کا خطاب ملا تو اس کی پرزور مخالفت کی گئی۔ عبدل المجیدسالک نے تو باقاعدہ مخالفت میں ایک نظم لکھی۔ جوکہ رسالہ’ زمیندار ‘میں شائع ہوئی ۔ حالا نکہ خطاب قبول کرنا وقت کی نزاکت اور سیاسی رخ کے پیش نظر درست فیصلہ تھا۔ جوکہ اقبال کی فہم وذکاوت کا ضامن ہے۔
اقبال کے مخالفین میں سردار عبدالقیوم، اقبال سنگ ،کے۔ ایل۔ گابا، ڈاکٹر سچانند سنہا ،ڈاکٹر رستوگی ،عبدالمجید سالک اور تنگ نظر مولوی کا کردار پیش پیش رہاہے۔ پروفیسر ایوب صابر نے پورے وثوق اور صبر کے ساتھ سب کو درجہ بہ درجہ جوابات دے کر ان کا دفاع کیا۔ اقبال پر قوم پرست ہونے کا الزام لگا یا گیا ۔اور ان کی نظم ’’ترانۂ ملی‘‘ کو ثبوت کے طور پر پیش کیا گیا۔ جس کے رد میں پروفیسر ایوب صابر یوں رقم طراز ہیں:
’’اقبال مشرق و مغرب کی شب کو سحر کرنے کے آرزو مند ہیں۔ مشرق میں عالم اسلام کے ساتھ ہی اقبال کی نظر ہندوستان پر پڑتی ہے کہ ہندسامراج کا زخم خوردہ تھا۔ وہ ہندوئوں اور مسلمانوں دونوں کوجگانا اور آزادی سے ہم کنار دیکھنا چاہتے ہیں۔‘‘
صابر، پروفیسر ایوب ۲۰۱۸ء؁ اقبال کی شخصیت اور فکر و فن پر اعتراضات ایک مطالعہ (جلد دوم۔ص۴۷
درحقیقت اقبال جیسا سیکولر مزاج اور تعصب سے پاک شاعر تاریخ کی ورق گردانی کرنے پرشاذونادر ہی نظر آئے گا۔نظم، ہمالہ،ہندوستانی بچوں کا قومی گیت اور نانک جیسی مشہور زمانہ نظمیں لکھنا اقبال کا کمال ہے۔
اقبال پر قوائد و زبان کے تعلق سے جو اعتراضات کئے گئے۔ اس کے متعلق پروفیسر ایوب صابر کئی شعراء کی مثال دے کر اقبال کے
مقام کا تعین کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں:
’’اقبال نے نئی تراکیب، نئے محاورے، نئی تلمیحات، نئے اشارات نئی علامات اور نئی اصطلاحات وضع کی ہیں ان سے بدلنے کی ضرورت نہیں ۔ اسی طرح تذکیر و تانیث کے ضمن میں دہلی و لکھنؤ کا فرق و اختلاف معلوم و معروف ہے۔ چنانچہ کسی ایک دبستان کی پیروی کے بجائے اقبال اپنے ذوق کے مطابق ’’غار‘‘ یا ’’پرہیز‘‘ کو مؤنث کے طور پر لیں، تو اس پر معترض ہونا ناروا ہے۔ انیس نے بلبل کو مذکر باندھا ہے۔ اور غالب و اقبال کے ہاں یہ لفظ مؤنث ہے … سب سے زیادہ اہمیت میرؔ، غالبؔ اور اقبالؔ کو ملنی چاہئے۔ جو شاعر جتنا بڑا ہوتا ہے۔ زبان پر اس کے اثرات اتنے ہی زیادہ ہوتے ہیں۔ عبدالرحمن بجنوری نے لکھا ہے کہ شیکسپیئر اور غالب کا کام قواعد وزبان کی پابندی نہیں ہے …… یہ ایک صائب رائے ہے۔ اور اس کا اطلاق اقبال پر بھی ہوتا ہے۔‘‘
صابر، پروفیسر ایوب، ۲۰۱۸ء؁۔ اقبال کی شخصیت اور فکر وفن پر اعتراضات: ایک مطالعہ (جلد سوم ص: ۱۵۹۶)
وہ مزید لکھتے ہیں:
’’سیماب اکبر آبادی اور عبدالسلام ندوی نے ’’پرہیز‘‘ کی تانیث پر اعتراض کیا ہے۔ سیماب کے نزدیک ’’فکر‘‘ مؤنث ہے اور ’’غار‘‘ مذکر، جب کہ بقول اثر لکھنوی دہلی والے فکر اور سانس کو مذکر بولتے ہیں۔ نور الغات کے مطابق ’’غور‘‘ لکھنؤ میں مذکر اور دہلی میں مؤنث ہے۔ مزید ہر آن جن اشعار میں ’’غور‘‘ اور ’’نقد‘‘ کو اقبال نے مؤنث استعمال کیا ہے ۔وہ منسوخ کر دئے تھے۔ ڈاکٹر گیان چند کے اپنے بیاں کردہ اصول کے مطابق منسوخ اشعار پر اعتراض نہیں کرنا چاہئے۔‘‘
صابر، پروفیسر ایوب، ۲۰۱۸ء؁۔ اقبال کی شخصیت اور فکر وفن پر اعتراضات: ایک مطالعہ ص:۱۵۹۷)
ہر ذی شعور پروفیسر ایوب صابر کی اس رائے سے اتفاق کرے گا۔ دراصل شاعری نام ہے آہنگ کا شاعر کا کمال یہ نہیں کہ وہ قواعد کا ماہر ہو۔ بلکہ کمال یہ ہے کہ وہ کتنی بلند فکر رکھتا ہے؟ اقبال نہ صرف شاعر ہیں بلکہ بڑے شاعر ہیں۔ ان کی فکر کی بلندی نے انھیں عالمی سطح پر مشہور و معروف کیا۔قوم کو راہ راست پر لانے میں ان کا کردار کلیدی رہاہے ۔
اقبال ایسی شخصیت کا نام ہے ۔جن پر غیر جانبدارانہ انداز سے تحقیق وتنقید کی جائے ۔تو وہ عالمی سطح ُ پر بڑے شاعر ومفکر کی صف میں کھڑے دیکھائی دیتے ہیں ۔پروفیسر ایوب صابر کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے یکسوئی اور غیر جانبدارانہ انداز سے اقبال پر تحقیق وتنقید کی ۔انہوں نے ہر اس شخص کی باتوں کا دندان شکن جواب دیا جنہوں نے اقبال پر فاسق اتہام باندھے تھے ۔پروفیسر ڈاکٹر ایوب صابر نے اقبال کے صاحب زادے آفتاب اقبال کو بھی نہیں بخشہ ،اتنا ہی نہیں اقبال شناس کے زمرے میں شمار کئے جانے والے فرزند اقبال ،ڈاکٹر جاوید اقبال کی بات جہاں انہیںغلط لگی تو انہیں بھی معاف نہیں کیا۔انہوں نے نہ صرف معترضین و مخالفین اقبال کی تردید کی ۔بلکہ ایسے اقبال شناسوں کی اصلاح کی جو مخالفین کے ہاتھوں غلط فہمی کا شکار تھے۔پروفیسر ڈاکٹر ایوب صابر کے متعلق اردو اکادمی کے ڈائریکٹر جنرل، ڈاکٹر راشد حمید یوں رقم طراز ہیں:
’’ڈاکٹر ایوب صابر نے تحقیق میں جواب کے بجائے تجربہ اور تحلیل سے کام لیا۔ اور اس میدان میں کامیاب رہے۔ ڈاکٹر ایوب صابر اقبال کے دفاع میں شمشیر برہنہ ہیں ۔لیکن جوش عقیدت میں دانائی اور بینائی کے ساتھ اقبال دشمنوں کو دلیل کے ساتھ جواب دیتے ہیں۔‘‘
صابر، پروفیسر ایوب، ۲۰۱۸ء؁۔ اقبال کی شخصیت اور فکر وفن پر اعتراضات: ایک مطالعہ (جلد سوم) ص: ۱۷۵۴)
اقبال پر لگنے والے الزامات کا سلسلہ آج بھی جاری وساری ہے۔لیکن ڈاکٹر ایوب صابر کی اقبال شناسی وقتی نہیںبلکہ فکر اقبال کے ساتھ انہوں نے زندگی کا لمبہ عرصہ گذارا ۔وہ شاہراہ اقبال کے ایسے شمشیر بے نیام سپاہی ہیں ۔جنہوں نے اقبال پر عائد شدہ ہر اتہام کا تحقیقی جائزہ غیرجانبدارانہ انداز میں لیا۔ سر اقبال کی ذات و شخصیت ،فکروفن ،فلسفئہ ونظریات اور شاعری کے حوالے سے کوئی بھی بہتان ایسا نہیں بچتا جوکہ پروفیسر ایوب صابر کے قلم کی زد میں نہ آیا ہو۔پروفیسر رفیع الدین ہاشمی ،پروفیسر ایوب صابر کی اقبال فہمی اور ان کی شخصیت پر نظر ڈالتے ہوئے تحریر کرتے ہیں:
’’اقبال کی شخصیت اور فکر و فن پر اڑائے جانے والے چھینٹے، پروفیسر ایوب صابر کے لئے ذہنی اذیت اور کرب کا باعث تھے۔ ان کی نفاست طبع اور وضع داری سے یہ ممکن نہ تھا کہ وہ تنقید اقبال کی اس پھوہڑپن اور بدہیئتی کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرتے ہوئے اس پر خاموش رہتے، مگر مخالفین کا جواب دینا جس قدر ضروری تھا۔ اتنا ہی مشکل بھی تھا … باعث اطمینان یہ ہے کہ مشکل مرحلے کو جو ایک طرح سے عام مقام عشق بھی ہے، ایوب صابر نے بڑی جرأت اور فرزانگی سے طے کیا ہے ۔امید ہے کہ جناب ایوب صابر اپنے جائزے کو توسیع دیتے ہوئے پورے اقبال مخالف لٹریچر کو کھنگالیں گے، اور اس کی فکری گمراہیوں کی نشاندہی کے ساتھ، اس کے نفسیاتی محرکات پر بھی تفصیل سے روشنی ڈالیں گے۔‘‘
صابر، پروفیسر ایوب، (طبع اول: ۱۹۹۳ء؁۔ اقبال دشمنی ایک مطالعہ، ۔ ص ۱۷ )
امید و یقین ہے کہ پروفیسر ایوب صابر کی اقبال فہمی، اقبالیات سے تعلق رکھنے والے ناقدین میں ذہنی طور پر تغیر لائے گی۔ پروفیسر ایوب صابر شناسان اقبال کے لئے ایک طرف شجر سایہ دار ہیں۔ تو دوسری طرف مخالفین اقبال کے لئے شمشیر بے نیام سپاہی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ پروفیسر ایوب صابر کی تحقیق سے اتفاق کرتے ہوئے یقینا مخالفین اقبال بھی ان کے متعلق پیش کئے گئے شواہد و دلائل سے اتفاق کریں گے۔ اور آئندہ اقبال پر غلط بیانی کرنے سے اجتناب کریں گے۔ جس سے اقبالیات کے ضمن میں خوش گوار فضا قائم ہوسکے گی۔

واصف علی واصف ؒ کاشمار اُن ہستیوں میں ہوتا ہے جنھوں نے ہمیشہ بھلائی کا سوچا اور اپنی ذات سے دوسروں کو نفع دیا۔ایسے لوگ دنیا میں بہت کم دکھائی دیتے ہیں جو دوسروں کو اُس مقام تک لے جائیں جو کسی کے اپنے وہم و گمان میں نہ ہو۔انھوں نے کئی لوگوں کی زندگیوں کو عملی طور پرجہاں بدلنے میں اہم کردار اداکیا وہیں ان کے افکار نے بھی لاکھوں افراد کو زندگی بہتر انداز میں جینے کا حوصلہ دیا۔انھی میں سے ایک راقم السطور بھی ہے۔ ان کے افکار زندگی بدل رہے ہیں، ان کی زندگی کے واقعات یقینی طور پر کسی بے راہ کو راہ ہدایت پر لا سکتے ہیں۔
واصف علی واصفؒ نے انگریزی میں ماسٹرز کیاہوا تھا اورانگریزی زبان پر مہارت بھی خوب تھی۔آپ تدریس کے شعبے سے وابستہ رہے۔پھرسکھانے کا یہ عمل درس گاہوں سے مکین گاہوں میں منتقل ہوگیااور خیالات قلم بند ہونے لگے۔ان کی چار کتابیں اردو نثر،جب کہ دو اردو شاعری اورایک پنجابی شاعری کی کتاب ہے۔ان کے علاوہ دوکتابوں کا انگریزی زبان میں ترجمہ ہوچکا ہے۔
ان9 کتابوں کی تفصیل یہ ہے:
کرن کرن سورج،دل دریا سمندر، قطرہ قطرہ قلزم،حرف حرف حقیقت،شب چراغ، شب راز،بھرے بھڑولے،دی بیمنگ سول، اوشین اِن ڈراپ۔ ان کی ریکارڈ شدہ گفتگو پر مرتب شدہ کتابوں کی تعداد28ہے۔ان کی شخصیت پر لکھی گئی کتابوں کی تعداد اس کے علاوہ ہے۔
مجھے اشفاق احمد کی باتیں سننے کا شوق تب ہوا۔ جب ان کے ٹیلی ویژن پر چلنے والے ”زاویہ“پروگرام کو ایک بار سنا تھا۔ پھر جب موقع ملا انھیں سنتا رہا۔ ”زاویہ“ کے کتابی صورت میں آنے کے بعدہر اُس لمحے پڑھا،جب میں ذہنی طور پر الجھا ہوا ہوتا تھا،یقین مان لیجیے کہ مجھے ہمیشہ پڑھ کر کچھ نیا سمجھنے کو ملا ہے۔ کچھ ایسا ہی ”دل دریا سمندر“ کے حوالے سے بھی کہوں گا کہ مجھے پڑھتے ہوئے احساس ہوا کہ کہیں اندر کچھ بدل رہا ہے۔
واصف علی واصف ؒکی کتب ہمارے لیے وہ خوشبو ہیں جن کی مہک سے ہم تا قیامت لطف و اندوز ہوتے رہیں گے۔ ”دل دریا سمندر“ نے راقم الحروف کو بے پناہ متاثرکیا ہے۔میری خواہش ہے کہ اس کتاب کو ہر گھر میں رکھا جائے اور نوجوان اس کو پڑھیں کیوں کہ اس سے زندگی بہترین انداز میں گزاری جا سکتی ہے۔ یوں بھی کہا جاتا ہے کہ اچھی کتاب سے بہترین اورکوئی دوست نہیں ہے اس لیے اچھی کتب ہر کتب خانے کا قیمتی اثاثہ ہوتی ہیں۔ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ ہم اچھی کتب کو محفوظ کرلیتے ہیں لیکن ان کو پڑھنے اور سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے ہیں اگر ایسا نہ ہوتا تو آج معاشرہ اتنا خراب نہ دکھائی دیتا۔
”دل دریا سمندر“ کے پیش لفظ میں واصف علی واصف ؒ اس مجموعے میں شامل مضامین کو پرانے چراغ سے تشبیہ دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ شاید ان میں نئی روشنی ہو۔ راقم الحروف کی نظر میں اس میں اتنی تیز روشنی ہے جو دل کی آنکھ سے دیکھنے والوں کو صاف دکھائی دیتی ہے۔ان کی کہی گئی باتوں کی تاثیر کا اپنا ایک لطف ہے۔ ان کو علم وحکمت سے اللہ تعالیٰ نے نوازا تھا اور دل چسپ بات یہ ہے کہ ان کا شجرہ نصب حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے ملتا ہے جن کو باب العلم(علم کادروازہ) کہا جاتا ہے۔واصف علی واصف ؒ کی باتیں ایسی ہیں جو سنی یا پڑھی جائیں تو بہت کچھ خود بخود واضح ہو جاتا ہے اورعمل کرلیا جائے تو پھر زندگی سنور جاتی ہے۔
اس مجموعے میں جن موضوعات پر بات ہوئی ہے ان میں محبت، خوف، صاحب حال، یہ کائنات، اے اہمدم دیرینہ، صداقت، وعدہ، اسلام+فرقہ=صفر، رفاقت، تقدیر بدل جائے تو، تلاش، دعا، چہرہ، علم، اضطراب، سکون قلب، تضاد و اضداد، خوشی اور غم، میں اورمیں، آرزو، فیصلہ، رات، تنہائی، ہرشے مسافر، انتظار، کامیابی، عمل، ابتلا، بڑھاپا، گمنام ادیبوں کے نام، نیند، وقت، یاد، آرزو اورحاصل آرزو، مقابلہ، زمین و آسماں، طاقت، پردیسی، ٹھہرتا نہیں کارواں وجود،، عبادت، خوش نصیب، اختلاف، السلام علیکم، رزق، پیلُوپکیاں اورصبر شامل ہیں۔
ہمارے معاشرے میں تیزی سے جھوٹ کی لعنت پھیل رہی ہے۔ ہمارے ہاں سچائی کو بہت کم تسلیم کیا جاتا ہے۔ سچ بولنے اورسچائی کے حوالے سے چند خوب صورت پیغامات”دل دریا سمندر“ میں شامل ہیں۔ ذرا ملاحظہ کیجیے کہ واصف علی واصف ؒ نے کس انداز میں تربیت فرمائی ہے۔
”کاذب ماحول میں صادق کی زندگی ایک کربلا سے کم نہیں۔“
”صداقت آفتاب کی طر ح ہے، جسے کسی کاذب اندھیرے کا ڈر نہیں ہوتا۔“
””کوئی جھوٹا آدمی سچ بولنے لگے، تو سمجھ لینا چاہیے کہ سچ خطرے میں ہے۔ سچ وہی ہے جو سچے کی زبان سے نکلے۔“
ہم اکثر وعدوں کو پورا کرنے میں ناکام رہتے ہیں اور اس ناکامی کو کئی رنگ دیتے ہیں۔ اس حوالے سے قول آپ کی نظر ہے۔
”اپنے وعدوں کا پاس کرنے والے لوگ عظیم ہوتے ہیں۔“
دوست بنانا اور دوستی رکھنا سب کے لیے اہمیت رکھتاہے لیکن ہم اس رشتے کو کس نظر سے دیکھتے ہیں یہ اور بات ہے لیکن ہم اس تعلق کو قائم رکھنے کے بعد کیا منفی تاثر دوسرے فریق کے بارے میں رکھتے ہیں۔وہ کس قدر سنگین ہے اس کو سمجھنے کے لیے درج ذیل قول کو پڑھیں اور سمجھیں کہ کس قدر گہری بات ایک جملے میں کہہ دی گئی ہے۔اگرہم اس پیغام پر من و عن عمل کریں تو ہمارے تعلقات شان دار بن سکتے ہیں کہ بدگمانی ختم ہوتی ہے تو رشتے حسین ہو جاتے ہیں۔
”انتخا ب رفیق سے پہلے تحقیق کر لینا جائز ہے، لیکن کسی کو دوست کہہ لینے کے بعد اسے کسی آزمائش سے گزارنا بددیانتی ہے۔“
ہم آج محبت کرنا چاہتے ہیں اور محبت کے بدلے محبت کے خواہاں ہیں لیکن اکثر لوگ محبت کو سمجھنا نہیں چاہتے ہیں کہ یہ کیا ہے۔
واصف علی واصف ؒ محبت کے حوالے سے فرماتے ہیں:
”محبت کوشش یا محنت سے حاصل نہیں ہوتی، یہ عطا ہے، یہ نصیب ہے بلکہ یہ بڑے ہی نصیب کی بات ہے۔ زمین کے سفر میں اگر کوئی چیز آسمانی ہے تو وہ محبت ہی ہے۔ محبت کی تعریف مشکل ہے۔ اس پر کتابیں لکھی گئیں، افسانے رقم ہوئے، شعراء نے محبت کے قصیدے لکھے، مرثیے لکھے، محبت کی کیفیات کا ذکر ہوا، وضاحتیں ہوئیں، لیکن محبت کی جامع تعریف نہ ہوسکی۔ واقعہ کچھ اور ہے، روایت کچھ اور۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ ایک چہر ہ جب انسان کی نظر میں آتا ہے تو اس کا نداز بدل جاتا ہے۔ کائنات بدلی بدلی سی لگتی ہے، بلکہ ظاہر و باطن کا جہاں بدل جاتا ہے۔“
ہم اکثر کسی نہ کسی وجہ سے ڈرتے ہیں اور یہ ڈر ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑتا ہے۔ خوف میں مبتلا افراد کے لیے بھی پیغام ”دل دریا سمندر“ میں موجود ہے۔
”خوف پیدا ہونے کے لیے خطرے کا ہونا ضروری نہیں۔ خوف انسان کے اندر پیدا ہوتا ہے، حالات سے بھی اورخیالات سے بھی۔جب انسان اپنی کسی خواہش کا جواز اپنے ضمیر میں نہیں پاتا، تو خوف زدہ ہونا لازمی ہے۔ خوف نارواخواہش کا اولیں سگنل ہے۔“
میں کتنی صدیوں سے اس انتظار میں گم ہوں
الہٰی اب تو مسیحا کو آسمان سے اتار
صاحب حال کے حوالے سے ایک واقعہ بھی اس مجموعے میں پڑھنے کو ملا ہے۔آپ کی نذر ہے۔
ایک صاحب حال مولانا روم ؒ سے ملا۔ بولا”مولانا!یہ علم کیا ہے؟“
مولانانے کہا”اسے آپ نہیں جانتے۔“
صاحب حال نے اپنا علم ظاہر کیا۔
مولانا بولے”یہ کیا علم ہے؟“
صاحب حال بولا”جسے تم نہیں جانتے۔“
اس کے بعد مولانا روم ؒ، غلام شمس تبریزؒ ہو کر رہ گئے۔مولانا بھی صاحب حال ہوگئے، صاحب مثنوی ہوگئے، ایسی مثنوی کہ قلوب کی خشک زمین پر عشق حقیقت کی نورانی برسات ہے۔مثنوی صاحب حال بناتی ہے۔ پیر رومیؒ کی محبت میں ”مرید ہندی“ صاحب حال ہو گیا، بلکہ صاحب اقبال باکمال ہوگیا۔
مجھے جن سطور نے اپنی گرفت میں کیا ہے۔ ان میں بہت کچھ ایسا ہے جو بہت خاص ہے۔مجھے یقین ہے کہ پڑھنے والے بھی ان کا پیغام سمجھ جائیں گے۔
”گمنام ادیبوں اور گمنام شعراء کی کاوشیں کسی نہ کسی نام سے شائع ہوتی رہیں، خوش بختی نے بدبختی سے اس کا فن خرید لیا۔ یہ کس کا حق تھا، دینے والے کا یا لینے والے کا؟ اس کا فیصلہ مشکل ہے۔ کہتے ہیں کہ ایک گمنام ادیب کے مرنے سے کئی نامور ادیب مر جاتے ہیں۔ اس سماج میں کتنے ساغر صدیقی لٹتے رہے اور وہ اس لیے خاموش رہے کہ انہیں بولنے سے کچھ حاصل ہوتا دکھائی نہ دیتا تھا۔ صاحب تخلیق کوئی اور ہے صاحب دیوان کوئی اور گمنام ادیب غریب نہ ہوتا، تو گمنام کیوں ہوتا؟
”زندگی میں جن ادیبوں کا کوئی پُرسان حال نہیں ہوتا، مرنے کے بعد ان کے دن منائے جاتے ہیں، بڑی دھوم دھام سے لنگر تقسیم ہوتے ہیں۔مقالے پڑھے جاتے ہیں۔ ان کے مزار پر چادریں چڑھائی جاتی ہیں۔ گمنامی میں مرنے والے ادیبوں کو مرنے کے بعد دانشکدے کا معزز رکن نامزد کر دیا جاتا ہے۔ یہ اس ادیب کی عزت افزائی ہے یا توہین؟
”کیا گمنام ادیب، ادیب نہیں؟ کیا بے دیوان شاعر، شاعر نہیں؟ کیا مشاعروں میں پہلے پڑھنے والے شعراء کے شعر کمزور ہوتے ہیں؟ ادیب کے وزن سے اس کا ادب تو وزنی نہیں ہو جاتا؟ کیا اد ب صرف ٹی ہاؤس میں پیدا ہوتا ہے؟ کیا ادیب صرف رسائل، اخباراورٹی وی تک ہی ہے، کیا شہروں سے باہر ادیب نہیں ہیں؟“
”گمنام ادیبوں کو سرپرست چاہئیں، ان کا ہاتھ پکڑا جائے۔ ان کے پاس تازہ واردات کی تاثریں ہیں۔ انہیں پیرایہ اظہاردرکار ہے۔ آج کے نئے اور گمنام ادیب کو بڑے مسائل سے دو چار ہونا پڑرہا ہے۔“
”آج کا المیہ یہ ہے کہ پرانا ادیب نہ بوڑھا ہوتا ہے، نہ ریٹائر ہوتا ہے۔ جب تک بزرگ ادیب بوڑھا نہ ہو، نیا ادیب جوان نہیں ہو سکتا۔ جب تک بزرگ ادیب ریٹائرنہ ہو، نیا ادیب فائز نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح پرانا خیال، جو اپنے زمانے میں نیا تھا، آج کے زمانے میں نیا پن اختیار کرنا چاہتا ہے اور یوں نامور ادیب صرف گمنام ادیب ہی پیدا کر تے رہیں گے اور نئے تخلیق کار شہر سے دور شہریار سے دوراپنے فن کی سسکیوں کو ہمیشہ کی نیند سلا دیں گے۔“
واصف علی واصف ؒ نے ”دل دریا سمندر“ میں جو لکھا وہ ایسا ہے جوہر دور کے انسان کے لیے کارآمد رہے گا۔ ان کی باتیں کسی خاص وقت کے لیے نہیں ہیں ان سے وہی فائدہ حاصل کرے گا جو اپنی زندگی کو بہتر کرنا چاہتا ہے۔اگرآپ اپنی سوچ کے زاویے بدلنے کے خواہاں ہیں تو پھر آپ کے لیے اس کتاب سے بہترین اورکوئی چیز کارآمد ثابت نہیں ہوگی۔

بصیرت خاشیہء کے دریچہء ادب سے دنیاۓ شعر گوئی میں سلطان سبحانی صاحب کی شاعری نے وہ خوشنما رنگ مہیا کئے ہیں جو عمومی شاعری سے کافی انفرادیت لئے ہوۓہے اور شاعری کے حسین پہلوؤں سے اُٹھ کر جہد مسلسل اور اجتہاد نو کی طرف توجہ مبذول کرواتی ہے
آپ ادبی اور فنی اعتبار سے ایک بے مثال فنکار اور انتہائی سادہ لوح انسان رہے ہیں، حسن شاعری کے عناصر بچپن سے ہی غالب رہے عمر کے اوائل میں ذوق مصوری پروان چڑھا اور اسی ذوق مصوری کے ساتھ ذوق شعر و ادب نے بھی دریچہء دل پر دستک دی اور اشعار کو مصوری کی شکل میں علامتی بیانیہ کے طور پر ڈھالا جانے گا.اس طرح شعری خزینہء حیات 1975ء میں “پت جھڑ کی خوشبو” اور 1985 ء میں “حکم نامہ” کی کتابی شکل ترتیب دے کر آفاقی دنیاۓ شعر و ادب کے روبرو کیا گیا. گو کہ آپ کو نثر نگاری میں بلا کا ملکہ حاصل رہا لیکن فن شاعری پر مسلسل کام کرتے ہوۓ، اشعار کو آفاقی حسن کےساتھ،صنائع بدائع کے تفہیمی حوالوں کے ساتھ فن شاعری پر کام کر کے ایک اعلیٰ مقام حاصل کیا گیا۔
سلطان سبحانی صاحب کی شاعری میں ان گنت رنگ موجود رہے ہیں، وہ یکسانیت اور فطری شاعری کے برعکس یکساں طرزِ سخن کی بجاۓ مختلف طرز فکر کو یکجا کرنے کی کوشش کرتے یہی وجہ ہے کہ آپ کے یہاں شاعری میں ہر شعر دوسرے شعر پر سبقت لے جاتا محسوس ہوتا ہے اور غزل کا موضوع ایک ہو کر بھی تمام اشعار جداگانہ کیفیت سے معمور ہوتے ہیں
جسے تلاش کریں اس کا گھر نہیں ملتا
یہ عہد وہ ہے کہ چلتے ہوئے ۓ مکان ہیں سب
عظیم ہونے کا دعوٰی یہاں تمہیں کو نہیں
جدھر بھی آنکھ اٹھاؤ لہو لہان ہیں سب
آپ کے پسندیدہ شاعروں میں مرزا غالب، داغ دہلوی، میر تقی میر، امیر خسرو، اور فیض احمد فیض شامل رہے۔
آپ ساری زندگی تحریکی اور انقلابی زمین سے وابستہ رہے اور یہی خوبی آپ کی شاعری میں جا بجا افشاں ہے
ہم سے دیوانوں کو کیا اہل ِ گریباں دیں گے مات
یوں بھی دستار و قبا والوں سے ہارا کون ہے
ہمیں نہ مانو مگر کل ہمیں کو ڈھونڈو گے
ہمارے قدموں کے نیچے نئے جہان ہیں سب
خود کو کھو دو گے مری تہہ تلک آتے آتے
لفظ ہوں لفظ سمندر سے بھی گہرا ہوں میں
آپ کے یہاں انسانی درد، کرب، احساسات اور انسانیت کے عظیم دریچے وَا ہوتے ہیں اور ہئیت انسانی کے ظہور کی سطح در سطح پرتیں کھلتی محسوس ہوتی ہیں
کسی کی آنکھ سے آنسو نہ جب تلک پونچھیں
خود اپنے درد سے ہم کو نہیں نجات اختر
اس درد کی ویرانی کیا اس کو اجاڑے گی
یہ درد تو وہ گھر ہے سب کچھ ہے جہاں شاید
وہ دستخط تو وصیت پہ کر گیا لیکن
کراہتا ہوا اک درد کاغذات میں تھا
سلطان سبحانی صاحب کی کتاب” حکم نامہ” درون ذات کا منظر نامہ پیش کرتی ہے جہاں وہ اپنے اندر سے اٹھنے والی تہذیبی، ثقافتی اخلاقی اور دنیوی آوازوں کے مہیب جنگل سے کسی شکل کو تراشتی محسوس ہوتی ہیں اور ان کے اندر کا معصوم انسان جاگ اٹھتا ہے اور آن کی آن اس جنگل سے اٹھنے والی آوازوں کا تعاقب کرتا ہے اور ایک عظیم انسان کے طور پر نجات دہندہ کے فرائض انجام دیتا ہے
وہ ایک بیوہ کے ٹوٹے مکاں کی گھات میں تھا
اگرچہ گنجِ سلیماں بھی اس کے ہات میں تھا
گھروندہ توڑا تھا اک پھول جیسے بچے کا
انہیں دنوں سے ہے کچھ مبتلا عذاب میں وہ
حکم نامہ عصر حاضر کے متشدد رویوں، قوت داخلہ کے سفاک رویوں اور غیر انسانی سلوک کا بہترین جواب خوش اسلوبی سے ادا کرتا ہے اور انسانی عظیم قوت، اخلاقی قدروں اور صبر و ضبط کے ہتھیاروں سے لیس ہوکر جوابی حملہ پھول، مسکراہٹ اور آسودگی سے دینے پر قادر ہوتا ہے یہ طلسم انسانی کا بہت بڑا شاہکار ہے کہ شاعر نے جا بجا انسانی ظالمانہ رویوں کا جواب خالص انسانیت نوازی سے دیا ہے
ہمارا ظرف دیکھو گے تو دریا تنگ دیکھو گے
ہیں جتنے شہر کے رسوا ہمارے سنگ دیکھو گے
کچھ تو ہے سچائی سے نسبت اسے
صرف اپنے سچ کو سچ کہتا تو ہے
سلطان سبحانی صاحب کی شاعری میں کبھی ممتا کا آنچل ہے کبھی محبوب کی دلنوازی ہے، کبھی عاشق کی تڑپ ہے تو کہیں کسی جگہ خاک آلودہ اجسام کی رخشندہ تحریر فلک پر قوس قزح کی مانند بکھرتی محسوس ہوتی ہے
اس موڑ پہ چھوڑے گی یہ عمر رواں شاید
مٹ جائیگا آنکھوں سے تب تیرا نشاں شاید
ہمیں وہ ہیں کہ جن کو زخم دے کر
بہت حساس ہوجاتے ہیں پتھر
ہوا کے شہر میں اس کو پناہ کیا ملتی
اَنا پرست جو پتہ ہے سطح ِ آب میں وہ
ہم سا انساں کہیں نہیں کوئی
سب کے سب بن چکے ہیں پیغمبر
آپ کی شاعری میں کسی جگہ خاک آلودہ اجسام کی رخشاں تحریر ملتی ہے کبھی برق زن زن اور کہیں بے محابا بلندی کی داستانیں
بکھری پڑی ہیںآپ نے نہ صرف شعر گوئی بلکہ آزاد نظم، نظم اور رباعی پر بھی کام کیا ہےآپ کی شاعری کبھی گل اندام کی صورت ہے کبھی شعلہ برق ہے کبھی تجلی ہے، کبھی یاس و آس کا پُل صراط ہے کبھی انسانیت نوازی کی اعلی مثال اور کبھی فخر ِ انسانی کی عظیم کاوشوں سے سرفراز ہے
جب بھی کسی کے جسم پر کپڑے پھٹے میں دیکھ لوں
مجھ کو خود اپنا پیرہن جلتا ہوا لگتا ہے کیوں
یہ عہد کوئی ہے پھول جنگل بہت حسیں ہے تمام منظر
مگر ہمارے لہو کے چھینٹے کہاں اڑیں گے پتہ نہیں ہے

یہ امر مسلم ہے کہ ماضی کی بیش قیمت روایات حال کے لیے کوہ نور کے مانند ہوتی ہیں۔جس طرح اسلاف کے تہذیب و تمدن نسل نو کے لیے نشان راہ بنے،اسی طرح مسلمانوں کے اندر کتب خانوں کے ذوق اپنے عہد کے ان گنت افراد کو علم کی روشنی سے منور کرنے کے علاوہ ایک فرد کے احساسات وافکار کو دوسری نسلوں میں منتقل کرنے کا ذریعہ بنے۔اقوام قدیم میں مسلمانوں کی شادیاں بھی کتب خانوں کے تبادلے میں ہوتی تھیں اور امیر و وزراء و شاہان وقت علم کے ذوق اور اس کی جستجو میں کتب خانے بناتے تھے مگر عوام جو ناخواندہ ہوتے تھے وہ لوگ صرف گھر کو مزین کرنے کے لیے کتابیں رکھتے تھے۔ڈاکٹر عبدالحلیم چشتی فرماتے ہیں:
”مسلمانوں نے کتب اور کتب خانے سے تطہیر قلب و نظر اور تزکیہ ذہن وفکر کے علاوہ آرائش مکین ومکان کا بھی کام لیا تھا”(بحوالہ ماہنامہ دارالعلوم۔شمارہ 5.6/اسلامی قلمرو میں اقراء اور علم بالقلم کے ثقافتی جلوے،عہد عباسی/مولانا ڈاکٹر محمد عبدالحلیم چشتی/مکتبۃ الکوثر)
کتب خانہ جس کو انگریزی میں library کہتے ہیں۔لائبریری لاطینی زبان کے لفظ libra سے مشتق ہے جس کے معنی چھال یا گودہ کے ہیں۔ وحشی دور میں انسان آڑھی ترچھی لکیروں سے اپنی باتیں ایک دوسرے تک ارسال کرتے تھے،جب ان لوگوں نے بولنا سیکھا تو انھیں اپنی باتیں محفوظ کرنے کی فکر ہوئی اسی فکر نے ان کی عقلوں کو مہمیز کیا اور وہ پیڑوں کے پتوں اور پتھروں پر اپنی باتیں لکھنے لگے۔ابتداء میں پیپرس(papyrus)نامی پیڑ کی چھال لکھنے کے استعمال میں لائی جاتی تھیں۔جیسے جیسے انسانی ذہن نے ترقی کی ویسے ویسے وہ متمدن ہوتا گیا چین میں سب سے پہلے کاغذ کی ایجاد ہوئی جس سے تحریری کام میں تیزی آئی پھر چھاپے خانوں نے اس میں مزید ہلچل مچادی۔تعلیم وتعلم کا کام سب سے پہلے ایشیائے کوچک،مصر اور چین میں ہوا تھا اس لیے سب سے پہلے کتب خانوں کی بنیاد یہیں پڑی:
’’کتاب کی ابتدائی تاریخ جو ہم تک پہنچتی ہے اس کی ابتدا دو مشہور اقوام کی تہذیبوں کے مطالعہ سے ملتی ہے۔وادی دجلہ اور فرات سے برآمد ہونے والی مٹی کی الواح نما کتابیں اور وادی نیل کی تہذیب مصر سے برآمد ہونے والے پیپائرس یعنی درخت کی چھال سے تیار کیے ہوئے تحریری مواد۔‘‘
یعنی انسانی تہذیبی ارتقاء کے ساتھ ساتھ ملکی معیشت و معاشرت کو بھی عروج حاصل ہوا،جس کی وجہ سے طرز رہائش کے ساتھ علمی وفکری ارتقاء کی راہیں بھی متعین ہوگئیں اور انسانوں نے اپنی باتوں کو محفوظ کرنے کا طریقہ بھی سیکھ لیا۔ان کے قیمتی طرز ہائے زندگی اور کتابوں کو محفوظ کرنے کے طریقے ہمیں مختلف تہذیبوں کے مطالعے اور کھنڈرات کی کھدائی میں ملی ہوئی وہ تختیاں اس بات کا ثبوت فراہم کرتی ہیں۔بقول مولانا عبدالسلام ندوی:
’’قدیم نینوا کے کھنڈرات سے ایک کتب خانہ برآمد ہوا جو 700 قبل مسیح کا ہے اس کتب خانہ کی تقریبا بائیس ہزار مٹی کی تختیاں برٹش میوزیم میں محفوظ ہیں‘‘(مشرقی کتب خانے/مولانا عبدالسلام ندوی/مولانا عبدالسلام ندوی فاؤنڈیشن،بمبئی/2008/تقدیم)
مسلمان بادشاہوں میں سب سے پہلے علاء الدین خلجی نے عوامی کتب خانوں کی بنیاد ڈالی اور امیر خسرو کو شاہی کتب خانے کا نگراں مقرر کیا۔کتب خانوں میں بے شمار کتابیں ہونے کی وجہ سے اس کے نام معلوماتی مرکز ہوا کرتے تھے۔زمانہ قدیم میں لوگ علمی محفلیں منعقدکیا کرتے تھے جس میں کوئی دقاق عالم کسی موضوع پر باتیں کیا کرتا اور لوگ اس سے مستفید ہوتے تھے۔ان دقاق علما میں جاحظ اور ابن سینا وغیرہ کے نام لیے جاسکتے ہیں۔کبھی ایسا بھی ہوا کرتا تھا کہ کتب فروشوں کی دوکانوں میں خود کو رات میں بند کرالیا کرتے تھے تاکہ کسی بھی کتاب سے استفادہ کرسکیں اس کے لیے اجرت بھی دینی پڑتی تھی۔کتب بینی کے ایسے انوکھے اورنرالے شوق اب ہماری تاریخ کا حصہ بن کر رہ گیے ہیں۔
موجودہ عہد میں علم کے حصول کا سب سے بڑا ذریعہ اسکول،کالج،اور یونیورسٹی کو ہی تسلیم کیا جاتا ہے جبکہ ان اداروں میں محض تعلیم دی جاتی ہے۔ان سے طلبا کو صرف راستے بتائے جاتے ہیں منزل تک نہیں پہنچایا جاتا۔سرپرست اپنے بچوں کو ان اداروں تک چھوڑ کر مطمئن ہوجاتے ہیں کہ ہمارا بچہ ملک میں ان کا نام روشن کرے گا اور طلبا اسی ادارے کو علم کی انتہا سمجھ لیتے ہیں نتیجتا بے روزگاری، ذہنی انتشاری،مایوسی،اضطرابی،رنجیدگی اور افسردگی ان کا خیر مقدم کرتی ہے۔کیونکہ ان کی رسائی کتب خانوں تک نہیں ہوتی یا ان سے دلچسپی نہیں ہوتی۔ہونا یہ چاہیے کہ والدین بچوں کو کتب بینی کی طرف راغب کریں اور بچے تعلیمی ادراے سے کتب خانوں کی طرف متوجہ ہوں،جو عملی زندگی کی شاہراہوں پر مسلسل گامزن ہونے کا ایک بہترین ذریعہ ہیں۔کتب خانے ہی صحیح معنوں میں علم کاذریعہ ہیں۔کتب خانے ہی راستے کا پتھر بننے سے بچا سکتے ہیں اور علم و نور کا گہوارہ بنا سکتے ہیں۔کتابوں کے ذریعہ سے ہی مختلف علوم وفنون تک رسائی ہوتی ہے۔بلند اور اعلی شخصیات سے ملاقات کا شرف حاصل ہوتا ہے اور مختلف علائق وممالک کے اسفار کا اختیار بآسانی ہوسکتا ہے اور اس کے لیے تعلیم کے ساتھ ساتھ کتب خانے ضروری ہیں گویا دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم وملزوم ہیں۔عربی زبان کے ایک نامور شاعر متبنی کے ایک شعر کا مصرعہ کتابوں کی اہمیت کو اس طرح اجاگر کرتا ہے”وخیرجلیس فی الزمان کتاب”یعنی زمانہ میں بہترین ہم نشین کتاب ہے۔اس ضمن میں قطب شاہی عادل شاہی اور مغلیہ ادوار کا جائزہ لیں تو بے شمار کتب خانے تاریخ کے جھروکے میں نظر آجائیں گے۔مروجہ روایات اور زمانے کے تقاضوں کو سمجھنا ہر فرد کی ذمہ داری ہے اور یہ ذمہ داری کسی بھی فرد کو ایک اچھا شہری بھی بناسکتی ہے بشرطیکہ وہ تمام علوم وفنون سے واقف ہو ایسے علوم کتب خانوں سے ہی حاصل ہوسکتے ہیں۔جیسا کہ اکبر کے زمانے میں اس کے کتب خانے میں اس کی وفات کے وقت 24000 کتابیں تھیں اور یہ کتابیں مختلف مضامین پر مشتمل تھیں ہر موضوع کے لیے مختلف جگہ بھی متعین تھی۔اس سلسلے میں ابوالفضل رقمطراز ہے:
”بادشاہ کا کتب خانہ کئی حصوں میں منقسم ہے،کچھ کتابیں حرم میں اور کچھ حرم کے باہر رہتی ہیں۔کتاب خانوں کے مختلف حصے تھے،جو کتابوں کی ذاتی قیمت اور اس علم کے درجے کے لحاظ سے جس میں وہ کتاب ہوتی یہ حصے مقرر ہوتے۔کتب نثر،کتب نظم،کتب ہندی،کتب فارسی،کتب یونانی،کتب کشمیری،کتب عربی کے لیے جدا جدا حصے متعین تھے۔”(فارسی اور ہندوستان/ڈاکٹر نذیر احمد/لیبل لیتھو پریس،پٹنہ/ص:57-85)
اکبر کے زمانے میں منعم خان خاناں جو جونپور کا حاکم تھا اور جس کے مشورے سے گومتی ندی پر پل بنا تھا وہ بھی علم کا قدردان اور عمدہ کتابوں کا شائق تھا۔ اس کے علاوہ فیضی اور عبدالرحیم خان خاناں کے کتب خانے بھی انتہائی شہرت کے حامل تھے۔ان کتب خانوں میں نجوم وفلسفہ، قانون و حکمت، تصوف اور شاعری کے علاوہ جیومیٹری کی کتابیں بھی موجود تھیں۔اکبر کی طرح جہانگیر کو بھی کتابوں سے دلچسپی تھی اور سیرو سیاحت میں بھی اکبر کی طرح ہی وہ اپنے ساتھ کتابیں لے جایا کرتا تھا۔مسلمان سلاطین و امراء کے نزدیک کتب خانے حکومت وامارت کی علامات سمجھے جاتے تھے۔شاہی کتب خانوں کے ساتھ ذاتی کتب خانوں کا بھی رواج تھا،جو کسی بھی عہد کے لیے اتنا ہی اہم اور ضروری ہے جتنی کہ ہمارے جسم میں روح۔ہماری تاریخی فتوحات انھیں باذوق سلاطین وامراء کی مرہون منت ہیں۔بادشاہ اپنے تمام تر اقتدار کے باوجود اپنی رعایا کے ساتھ حسن سلوک کا معاملہ کرتے تھے اور ظلم وزیادتی سے احتراز کرتے تھے یہ صرف علم کا ہی نتیجہ تھا اور علم بھی ایسا تھا جو جامد نہیں بلکہ متحرک تھا۔ اس بات کا اندازہ ہمیں ہمایوں کے علمی شوق سے ہوتا ہے اس کے دربار میں ایک شاعر سید علی ترکی آیا جو علم ہیئت میں بھی مہارت رکھتا تھا۔اس کی قابلیت کی وجہ سے بادشاہ اسے اپنے پاس ہی رکھنا چاہتا تھا، مگر وہ ہندوستان میں ٹھہرنے کا خواہشمند نہیں تھا،لہذا اس نے بادشاہ سے جانے کی اجازت مانگی۔ بادشاہ نے جانے کی اجازت تو دے دی مگر برسات کے مہینے میں دہلی زیر آب ہوجاتی تھی۔ اس لیے تین ماہ تک اس کو اس غرض سے روک لیا کہ وہ ہندوستانی علمائے ہیئت کے ساتھ مل کر ان کو شمس وقمر کی گردش اور آفتاب کی گردش و خط استوا کے نکات کو سمجھنے میں معاونت کرے۔ہمایوں انتہائی صاحب ذوق اور قاضی القضاۃ بادشاہ اور صاحب دیوان شاعر تھا۔ اس کے دربار سے اپنی رعایا کے لیے صلہ رحمی و عدل وانصاف کے معاملات کے لیے دینی و دنیوی فتوے جاری ہواکرتے تھے۔کوئی بھی صاحب علم سمجھ سکتا ہے کہ فتوے کتابوں کے ذریعہ ہی باہر آسکتے ہیں جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ ہمایوں کے پاس اپنا ذاتی کتب خانہ بھی تھا اور اس کے والد بابر کا بھی ذاتی کتب خانہ اس کی ملکیت تھا، جس کے آثار دہلی کے لال قلعے میں پائے جاتے ہیں جس کے زینے سے پھسل کر اس کی موت بھی واقع ہوئی تھی۔ہمایوں کی طرح اس کی بھانجی سلیمہ سلطانہ بھی کتب بینی کا شوق رکھتی تھی اس کے پاس بھی ذاتی کتب خانہ تھا۔نورجہاں بیگم شاہی محل میں داخل ہونے سے قبل ہی مختلف علوم وفنون کی قدردان تھیں۔وہ بھی کتب بینی کا شوق رکھتی تھیں ان کے پاس بھی ذاتی کتب خانہ تھا۔ نئی کتابوں کے اضافے کا اسقدر شوق رکھتی تھیں کہ مرزا کامران کا دیوان تین مہر میں خرید لیا تھا۔دیوان کے اول صفحے پر درج ذیل عبارت رقم ہے:
”تین مہر قیمت اموال،نواب نورالنساء بیگم”
(مسلم سلاطین کے عہد میں ہندوستان کے تمدنی کارنامے دارالمصنفین شبلی اکیڈمی/2013/ص:252)
اورنگ زیب،جہانگیر،داراشکوہ اور متعدد امیروں بادشاہوں،شاہزادوں،شہزادیوں اور دانشمندوں وغیرہ میں علم دوستی اور کتب بینی کے شوق کے ساتھ ساتھ کتب خانوں کے ذوق بھی پائے جاتے تھے۔جن کی یادگاریں ہم تک پہنچی ہیں اور ہم ان کے طرز زندگی،تہذیب وتمدن سے واقف ہونے کے ساتھ ساتھ ان کی تاریخ سے آشنا ہوئے اور قلمی نسخے،مخطوطے،یونانی عربی،فارسی کی متعدد کتابیں،دوسری زبانوں کے تراجم،مہابھارت،رامائن،کلیلہ ودمنہ بابر نامہ،توزک جہانگیری،تاریخ خاندان تیموریہ اور مثنوی مولانا روم جیسے قیمتی نسخوں سے آشنائی عطا ہوئی اور تحقیق و تنقید کے دریچے بھی وا ہوئے۔کتب خانوں اور علم دوستی کے سلسلے میں شاہانہ مغلیہ سلطنت کے متوازی دکنی سلاطین میں شاہان گولکنڈہ اور شاہان بیجا پور زیادہ اہمیت کے حامل ہیں وہ لوگ علم پروری میں انتہائی آگے تھے جس کی وجہ سے ان کی حکومت بھی اعلی پائے کا درجہ رکھتی ہے۔کیونکہ کسی بھی عہد کی حکومت ہو کوئی بھی رعایا ہو ان کے دل ظلم وجبر سے نہیں بلکہ علم دوستی اور علم پروری سے مسخر کیے جاتے ہیں جیسا کہ دکنی بادشاہوں کا شیوہ امتیاز رہا۔قطب شاہی دور میں علمی سرگرمیاں عروج پر تھیں۔اس میں ادبی،تخلیقی اور فنی کارنامے زیادہ ہوئے۔اسی عہد میں شہر حیدرآباد بسا،تعمیری کام دو تہذیبوں کے سنگم پر ہوئے،نئے نئے باغات وجود میں آئے،فن موسیقی اسی کا خاصہ ہے۔فن مصوری بھی انہیں اہل ذوق کی احسان مند ہے،اسی عہد شاہی میں فواروں،سڑکوں،سیر گاہوں،عبادت خانوں،مدرسوں،اور کتب خانوں کا قیام عمل میں آیا۔انھیں علم دوست بادشاہوں کی وجہ سے علما و فضلا کو اہم مقام ملا۔قطب شاہی سلطنت کا یہی کمال تھا کہ زوال کے بعد بھی علم وادب کی دنیا میں اس کا نام روشن ہے۔ورنہ بہت سی حکومتیں آئیں اور تخت و تاراج ہوکر دنیا سے ہی نیست و نابود ہوگئیں۔شاہان قطب کا کمال یہ تھا کہ ان لوگوں نے اپنے زمام اقتدار میں اپنی صحمت مند قدروں کے ساتھ علوم اسلامیہ کو بھی ترقی دی۔جمیل جالبی تاریخ ادب اردوجلد اول میں رقمطراز ہیں جس سے شاہان قطب کے کتب خانے کا پتا چلتا ہے:
’’ابر”ابراہیم کے دور میں قاسم طبسی،حاجی ابرقوہی اور ’’شاہ بن قبادالحسینی فارسی زبان کے عالم وشاعر تھے اورفیروز،محمود،ملا خیالی اردو زبان میں داد سخن دے رہے تھے۔اس نے تلگو زبان وادب کی بھی سرپرستی کی اور تلگو شعرا نے ابراہیم قطب شاہ کی مدح میں بہت سی نظمیں لکھیں۔ممکن ہے اردو فارسی کے اور بھی بہت سے شعرا اس دور میںموجود ہوں لیکن اس دور کی بیشترتصانیف،عبداللہ قطب شاہ کے دور حکومت میں’’خددادا محل‘‘ میں آ گ لگ جانے سے،جہاں ابراہیم کا کتب خانہ خاص واقع تھا اور جس میں محمد قلی قطب شاہ نے اضافہ کیا تھا جل کر خاک ہوگئیں۔”(تاریخ ادب اردو،جلد اول/جمیل جالبی/ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس/2015/ص290)
سلطان قلی قطب شاہ ترک نژاد تھا جو ایران سے اپنی جان بچاکر دکن آیا تھا۔وہ بانی سلطنت قطب شاہ تھا۔یکے بعد دیگرے اس سلطنت میں علم پرور بادشاہ گزرے جن میں سب سے اہم محمد قلی قطب شاہ ہے اس کی اہمیت کا اندازہ اس کیپہلے صاحب دیوان شاعر ہونے سے لگایا جاسکتا ہے اور اس کی علم پروری کا اندازہ محمد حسین تبریزی کی شہرہ آفاق فرہنگ برہان قاطع کے انتساب سے لگایا جاسکتا ہے جو محمد قلی قطب شاہ کے نام معنون ہے۔اس کے متوازی عادل شاہی سلاطین ہیں جس کا بانی یوسف عادل شاہ بھی سلاطن عثمانیہ کا شہزادہ تھا اور ایران سے اپنی جان بچاکر دکن آیا تھا۔اس نے اپنی محنت و قابلیت سے عادل شاہی سلطنت کی بنیاد ڈالی۔ان میں سب سے اہم ابراہیم یوسف عادل شاہ ثانی ہیں جو جگت گرو کے نام سے مشہور ہیں اور ان کی کتاب ‘نورس’ بھی انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ محمد قلی اور ابراہیم عادہ شاہ ثانی دونوں ہی ہم مزاج تھے۔جس کی وجہ سے محمد قلی نے اپنی بہن چاند سلطان کی شادی اس سے کردی۔
عادل شاہ ہمہ جہت شخصیت کا مالک تھا۔مختلف علوم وفنون میں دسترس حاصل تھی۔وہ فن موسیقی کا رسیا تھا اور علم دوست شخصیت کا حامل تھا اس کے دربار میں خلیل اللہ جیسے اعلی پائے کے خطاط گزرے ہیں اور ظہوری و فرشتہ جیسے جید عالم بھی گزرے ہیں۔ابراہیم عادل شاہ ثانی کے کتب خانہ کی اہمیت اس میں پائے جانے والے اہم قلمی نسخوں سے ہوتی ہے۔بقول ڈاکٹر نذیر احمد:
”ابراہیم عادل شاہ کے کتاب خانے کا ایک اور اہم نسخہ کتابخانہ دیوان صاحب باغ مدراس میں راقم کی نظر سے گزرا۔یہ خمسہ امیر خسرو کا نہایت نفیس مصور نسخہ ہے۔جس پر ایک یادداشت ہے۔جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہابراہیم عادل شاہ کے کتابخانے کی زینت رہ چکا ہے،اس نسخے کی ایک بے نظیر خصوصیت یہ ہے کہ اس کی مصوری مغل دور سے قبل کی ہے۔اور احتمال یہ ہے کہ شاید اس نسخہ کی کتابت اور تصویر کشی ہندوستان میں ہوئی ہو،چونکہ مغل دور سے قبل کے مصور نسخے نہیں ملتے۔اس بنا پر اس کی اہمیت اور زیادہ بڑھ جاتی ہے،ابراہیم عادل شاہ خود بڑا صاحب نظر تھا،اس سے یہ قیاس ہوتا ہے کہ یہ نسخہ یقینا قیمتی ہوگا۔‘‘(فارسی اور ہندوتؤستان،ڈاکٹر نذیر احمد، لیبل لیتھو پریس ،پٹنہ۱۹۷۴ء، ص:۷۹)
درج بالا سطور سے عادل شاہی سلطنت کی علم دوستی ،صاحب نظری اور ان کے کتب خانوں کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔اس مختصر سے جائزے سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ کتب خانوں کی اہمیت بہت زیادہ ہے ،کیونکہ کتب خانے ایک ایسا ادراہ ہوتے ہیں، جہاں پر ہر قسم کی کتابیں موجود ہوتی ہیں۔وہاں پر اعلیٰ قسم کے فلاسفر، دانشور، مصور، خطاط، سائنس داں، عالم علم کیمیا، عالم علم ہیئت ونجوم کا ہجوم ہوتا ہیاور اس ہجوم سے ہر طالب علم اپنی بساط بھر استفادہ کرسکتا ہے۔اس استفادے سے اپنی آرزوئوں کی تکمیل کرسکتا ہے۔ ایک زمانے پر اقتدار بھی حاصل کرسکتا ہے۔ اس سے لوگوں کے قلوب کو مسخر بھی کرسکتا ہے۔ علم ہی اس تسخیر کا سبب بنتا ہے۔ علم ہوگا تو تہذیب ہوگی، تہذیب ہوگی تو فتح ہوگی اور علمی فتح زمینی فتح سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔جس طرح اسلاف کے تہذیب وتمدن نسل نو کے لیے نشان راہ بنے ،جس طرح قدیم اردو جدید اردو کے لیے ایک اہم ستون ثابت ہوئی،جس طرح قدیم شعرا جدید شعرا کے لیے نقش پا ثابت ہوئے،جس طرح قدیم نثر جدید نچر کے لیے ایک حسین شاہراہ بنی اور شاہ علی محمد جیو گام دھنی، قاضی محمود دریائی، شیخ خوب محمد چشتی، میران جی شمس العشاق اور برہان الدین جانم جیسے صوفیائے کرام سے اردو کے راستے ہموار ہوئے۔مقیمی، غواصی، صنعتی، امین، ابن نشاطی کے ذریعہ اردو کی سلاست ولی تک پہنچی، پھر اس سے آبرو، حاتم، فائز، آتش، ناسخ، میروسودا، غالب، اقبال اور حالی جیسے کتنے ہی گلدستے فضا کو معطر کرنے کے لیے کھلے ۔ ایسے نادر اور عطر بیز پھول عہد سلاطین کے ہی مرہون منت ہیں۔ کیونکہ اگر ان باذوق سلطانوں کی علم سے رغبت وذوقیت نہ ہوتی تو پھر کتب خانے بھی نہ ہوتے، کتب خانے نہ ہوتے تو وہ انسانی خیالات و تجربات اور احساسات بھی ہمارے پاس نہ ہوتے۔
مصادر و مراجع:
۱۔بحوالہ ماہنامہ دارالعلوم شمارہ ۶۔۵، اسلامی قلمرو میں اقراء اور علم بالقلم ثقافتی جلوے،عہد عباسی،مولانا ڈاکٹر محمدعبدالحلیم چشتی، مکتبہ الکوثر
۲۔dailypakistan.com.pk
۳۔مشرقی کتب خانے، مولانا عبد السلام ندوی ،فائونڈیشن، بمبئی، 2008ء
۴۔فارسی اور ہندوستان، ڈاکٹر نذیر احمد، لیبل لیتھو پریس ،پٹنہ،۱۹۷۴ء
۵۔مسلم سلاطین کے عہد میں ہندوستان کے تمدنی کارنامے ،دارالمصنفین، شبلی اکیڈمی،۲۰۱۳ء
۶۔تاریخ ادب اردو جلد اول، جمیل جالبی، ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس،دہلی، ۲۰۱۵ء
۷۔فن تعلیم وتربیت،جلد دوم،تدوین وترتیب، ڈاکٹر بدرالاسلام،مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، ۲۰۱۸ء