Urdu Adab

علی شاہد دلکش کے قطعات
علی شاہد دلکش کے قطعات
علی شاہد دلکش کے قطعات
غالباً دسمبر 2022 مہینہ کی بات ہوگی کہ میں گھر کے لئے روانہ ہو رہا تھا۔بس میں سوار سرد موسم کی وجہ سے موبائل جیب میں رکھ کر پرسکون بیٹھا تھا۔یکایک فون کی گھنی بجی جیب سے فون نکالا تو دیکھا ڈاکٹر عمیرمنظرؔ بھائی کا فون تھا۔جلدی سے اُٹھایا علیک سلیک کے بعد دریافت کیا کہاں ہو؟
میں نے جلد بازی میں بول دیا گھر جا رہا ہوں۔اکیڈمی بند ہے شروع ہوگئی تھی۔انہوں نے کہا چلو ٹھیک ہے واپس آکر فون کرنا ضروری کا کام ہے۔فون کٹ گیا۔کافی دیر تک غورفکرکرتا رہا ،ادھر اُدھر کی باتیں ذہن میں گردش کرنے لگیں۔ایک طرف میری خوشی کی کوئی انتہاء نہ رہی۔
اور دوسری طرف ایک ایسے شخص سے بات کرنا جن کے لئے بڑی شدت سے انتظار کیا کرتا تھا میں اسے کس الفاظ میں بیان کروں سمجھ سے باہر ہے۔یہ میری زندگی کا وہ لمحہ تھا جس کا میں پچھلے سات سالوں سے انتظار کیا ۔کیونکہ لکھنؤ میں رہ کر ایسے لوگوں سے رابطہ رکھنا میرا اولین شوق تھا۔لکھنے،پڑھنے کے شوق نے یہ انسیت دائمی طور پر قائم کردی ہے۔اور جب کوئی اپنے علاقے اور اپنے دیارِ شوق مارد علمی(جامعہ ملیہ اسلامیہ نیو دہلی) کے طالب علم رہے ہوں ان سے ملنے اور باتیں کرنے کا مزا ہی کچھ اور ہوتا ہے۔اور لکھنو آنے کے بعد میری ادبی لوگوں میں سب سے پہلی ملاقات عمیر منظر بھائی سے ہوئی۔
اس سے قبل میں جنوبی ہند کی مختلف جامعات میں طالب رہ چکا تھا۔وہاں کے ادبی رفقاء کی ایک طویل فہرست ہے جن کا ذکر یہاں مناسب نہیں ہے۔ہاں مگر ایک بات کا ذکر ضروری ہے یہاں پر جن سے میں لکھنا پڑھنا سیکھا ہے۔میرے اساتذہ اکرام میں پروفیسر بیگ احساس، پرفیسر مظفر علی شہ میری، پروفیسر خالد سعید، پرفیسر نسیم فریس، ڈاکٹر شمش الہدی ٰسر اور مشفق استانیوں میں ڈاکٹر مسرت میم اور ڈاکٹر نور فاطمہ وغیرہ قابل ذکر ہے۔
اسی ادھیر بن  میں گھر تو پہونچ گیا ۔لیکن گھر پہونچنے کے بعد مجھے سکون نہیں ملا۔شب وروز دماغ میں بس ایک ہی بات چلتی رہی کہ ایسا کیا کام پیش آیا ہے کہ منظر بھائی نے اتنی شدت سے یاد کیا ہے۔بہرحال دو چار روز کے بعد میں لکھنو واپس ہوا۔رات کا وقت تھا۔صبح کے انتظار میں آنکھ سے نیند رخصت ہو چکی تھی۔اللہ اللہ کرکے صبح ہوئی۔جلدی سے غسل، اور ناشتے سے فارغ ہوا۔سیدھا ڈالی گنج مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کی شاخ لکھنوکی طرف چل نکلا ا۔کافی تفتیش کے بعدمجھے وہ جگگہ ملی اور عمیر منظر بھائی کا آفس بھی مل گیا ۔
دعا سلام ہوا۔بعدانہوں نے یسوال کیا:اس وقت کیا کررہے ہو۔ناچیز سے رہا نہیں گیا دل کا درد زبان پر یکے بعد دیگرے بیان کرتا چلا گیا ۔کافی گفت و شنید کا بعد انہوں نے کہا: دیکھوں ایسا ہے تم لکھنے والا کام کرتے ہی ہو۔
جب تک تمہارے پاس وقت ہے اس کام کے ساتھ ایک اور کام کرو ۔’’ میں نے جلدی سے کہا اور کیا کام ہے ۔وہ بولے :ایک جگہ میں لے چلوں گا وہاں بیٹھ کر لکھنا ہے۔ایک استاد کی خدمت سمجھ کر یہ کام انجام دو۔انشاء اللہ تمہارے لئے کوئی بہتر سے بہترین راستہ نکلے گا۔ اورساتھ ہی ساتھ تمہاری لکھنے کی صلاحیت میں چوگونا اضافہ بھی ہو گا۔میں نے اس موقع کو غنیمت جان کر ہامی بھرلی۔اور فوراَ بولا کب چلنا ہے اور کہاں چلنا ہے؟
میری تھوڑی سی بے تکلفی ہر منظر بھائی نے دبے الفاظ میں کہاذرا صبر سے کام لو ۔اور کہا: تم ایسا کرو کل نہیں تو پرسوں دو بجے کے بعد آنا تب ساتھ میں چلیں گے۔میں کہا ٹھیک ہے ۔واپس ہونے لگا تو مجھے کچھ کتابیں اور رسالے دیئے۔اور کہا کہ اس کوپڑھنا اور کچھ لکھنے کی کوشش بھی کرنا جس میں ان کی ایک بالکل نئی ترتیب شدہ کتاب بھی شامل تھی (خان محبوب طرزی، تنقیدی و تجزیاتی مضامین کا مجموعہ) ۔ مگر یہ میری بد قسمتی رہی کہ اس آؤ بھگت کے چکر میں اس کتاب پر چند سطور لکھنے سے قاصر رہا۔اس کے لئے معذرت خواہ ہوں بصدق دل۔
دو دن کے بعد میں اس وقت مقررہ پرحاضرہوا۔ہم دونوں ساتھ میں موٹر سائیکل پر سوار ہوئے۔اور سیدھا لکھنئو کا وہ عظیم الشان علاقہ جسے حسین آباد کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے لوگو ں سے گھرکا پتہ معلوم کرتے ہوئے  پہنونچے۔حالانکہ حسین آباد تو وہاں پر موجود ہ امام باڑے کی وجہ سے زیادہ مشہور ہے۔لیکن یہ تو لکھنئو والوں کی بد نصیبی رہی کی اسی امام باڑے کے عقب میں اردو ادب کا وہ درخشندہ ستارہ جس کو دنیا ادب منور رانا کے نام سے جانتی تھی مگر پڑوسیوں  گلی محلے والے کو اس کی ذرا پراہ نہیں تھی۔ظاہر ہے بغل میں بچہ شہر میں ڈھنڈورا والی بات صادق آگئی۔ہم دونوں بالکل ایک طالب علم کی طرح ان کے دروازے پر پہونچے اور دائیں جانب کھڑے ہو کر دستک دی۔
خادم نے آکر بتایا کہ ابھی سر نہیں ہیں کہیں گئے ہیں۔اس مژدہ کے بعد ہم ایک طرف ہو کر کچھ باتیں کرتے رہے  ابھی ان کے مزاج  پر گفتگو جاری تھی۔ان کی بزلہ سنجی پرتبسم و نشاط کا سلسلہ جاری رہا، ایک دفعہ گماں ہوا کہ وہ خلاف مزاج کسی کام پر بہت رنج ہوا کرتے ہیں۔اور خادم کو بھی اس کی تربیت اچھی کردی تھی۔دس منٹ تک ہم لوگ انتظار کئے پھر منظر بھائی نے کہا:کہ ان سے بولو کی عمیر منظر آئے ہیں ملنا چاہتے ہیں۔اب آگے کا احوال ذرا کان دھر سنیئے۔
خادم اندر گیا،مشکل سے ایک منٹ ہوا ہوگا  جلد بازی میں واپس دروازہ کھولا اور غصے میں لال۔چہرہ بالکل سرخ تھا۔ یا یہ لالی پیدائشی تھی سمجھ سے باہر تھی۔کیونکہ اندر راناؔ صاحب نے انھیں اچھی دشنام سے نواز چکے تھے۔ہم دونوں ان کے مہمان خانے میں داخل ہوئے۔سلام کیا۔
انہوں نے دیکھتے ہی کہا۔آو عمیر آو میرے پاس بیٹھو ،یار کہاں تھے؟ اتنے دنوں سے۔منظر بھائی اپنی مصروفیات بتاتے ہوئے کچھ معذرت کر لی۔اس کے بعد میری طرف نگاہ ڈالی میرے اندر سے سارے اوسان لرزان تھے۔یہ میری زندگی کا وہ لمحہ تھاجس کا میں بہت بے صبری سے انتظار کیا۔ آج تک  میں اتنا جہاں دیکھے ہوئے آدمی سے روبرو ہونے کا موقع ملے گا یہ سوچا نہیں تھا۔یہ میری خوش نصیبی تھی کہ مجھے ان کے سامنے بیٹھ کر کچھ دن لکھنے کا موقع عنایت ہوا۔
پوچھنے لگے یہ لڑکا کون ہے۔
’’کیا نام ہے بیٹا تمہارا؟؟؟ 
’’جی میرا نام ابراہیم ہے‘‘
’’کیا کرتے ہو؟؟؟ 
’’ابھی تو کچھ نہیں۔‘‘
’’اردو سے پڑھنالکھنا جانتے ہو۔‘‘
’’جی تھوڑا بہت۔‘‘
اندر تھوڑا استراحت محسوس ہوئی ۔اُس کے بعد میں نے منوراناصاحب کی پوری شباہت پر نظر دوڑائی۔عمر  رسید کے بعد سر سے فارغ البال نظر آئے یا اس دن انہوں نے بال کی مرمت کروا رکھی تھی ، آنکھیں اس قدر بڑی تھیں گویا وہ باہر کو نکلنا چاہتی ہیں،بے ریش چہرہ، لیکن مونچھ کے گھنے  بال سفیدی  مائل ہوچکے تھے ۔بائیں گال پرآپریشن کی وجہ سے ایک گولی نما ابھار آگیا تھا، دونوں  ہونٹ بہت موٹے ہونٹوکے درمیان جو چاروں دندان ماند تھے وہ بھی شاید پان کھانے کی کثرت سے سیاہ پڑچکے تھے۔بولنے میں انھیں لکنت محسوس ہونے لگی تھی ۔لیکن جب شعر پڑھتے تو ایسا معلوام ہوتا کہ کوئی شعر نید سے جاگ گیا ہے ۔آواز میں وہ گھن گرج تھی کہ پڑوس کے لوگ بھی نیند سے بیدار ہوجائیں ۔
جسامت کے دھنی انسان تھے۔دیکھا جائے تو ان کا پیٹ اور سینہ ایک جیسا بالکل یکساں معلوم ہو رہا تھا ۔ لمبی بیماری کی وجہ سے اب پیٹ میں وہ ابھارباقی نہیں رھا۔پیر ہمیشہ ایک کرسی پر سیدھا رکھاکرتے تھے۔کیونکہ ان کے دونوں گھٹنوں کا دو تین مرتبہ آپریشن ہو چکا تھا جس کی وجہ سے وہ زیادہ دیر تک پیڑ لٹکا کر نہیں بیٹھ سکتے تھے۔اور پید کے بارے میں اک مرتبہ کہنے لگے کہ یار میں تو ڈاکڑوں سے بول چکا ہوں کہ میرے گھٹنے میں آپ کو لوہے کی چین لگادیں  تاکہ بار بار کھولنے میں آسانی ہو سکے ۔جب تک وہ بیٹھے  رہتے خادم ان کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑا رہتا تھا۔خادم کے بارے میں ایک بیان کرنے لگے کہ یہ ہمارے ساتھ اس قت سے خدمات انجام دے رہا ہے جب اس کی عمر  صرف ۱۳ برس تھی ۔یہیں لکھنو کے چار باغ اسٹیشن پر ملا تھا ۔اس دن سے آج تک بڑی ایمانداری کے ساتھ حکم بجا لاتا ہے ۔اب اس کی عمر صرف ۵۲ سال ہے ۔گھر سارے افراد اسے ہمارے گھر کا حصہ مانتے ہیں ۔اس لئے کہ پہلے وہ ہمارے گھر کی دیکھ بھال کیا اور اب ہم لوگ اس کے گھر بوجھ اٹھا رہے ہیں ۔  
زبان کے بہت مہارتھی تھے۔جس موضوع پر بولنا شروع کرتے تھے ختم ہونے کا نام نہیں ،درمیان میں کوئی دوسری بات نکل جاتے تب خاموش ہوجاتے ۔الفاظ کی ادائیگی اور ذخیرہ کی میں بات کروں بخدا میں اپنی زندگی میں ایسے ایسے الفاظ نہیں سنیں تھے جو ان زبان پر رواں دواں تھے ۔ شعر سے زیادہ نثر میں ماہر نظر آتے ۔کبھی کھبی یہ گمان ہوتا کہ یہ شاعر سے زیادہ نثر نگار ہیں ۔اگر یہ شاعر نہیں ہوتے تو ایک عمدہ اور بہترین نثر نگار ضرور ہوتے ۔ دل کی بھی بہت فیاض  تھے۔ان کی سخاوت اور فیاضی کا جو نمونہ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے شاید پھر کہیں دیکھنے کو ملے ۔کبھی کسی غریب ضرورت مند کو مایوس نہیں لوٹایا ۔اس کے علاوہ جو ملاقاتی ان کے پاس آتے تھے ،ہمیشہ ان سے جھک کرت باتیں دیکھا ۔وہ بات الگ ہے کہ وہ حکومت معاملات میں سخت نظر آئے ۔جو بات کرتے بالکل یقین کے ساتھ سینہ ٹھونک کر۔جب بولنا شروع کرتے تو بالکل سکوت طاری ہو جاتا۔بعض دفعہ جب ان کی خاتوں خانہ کمرے میں وارد ہوتیں تو ان سے از راہ مزاق  بولتے اب ذرا خاموش رہوں مسجد یہاں داخل ہوچکی ہے ۔اس لئے کہ ان کہ زوجہ بہت نیک اور پرہیز گار ،دین دارہیں ،ہر وقت ہاتھ میں تسبیح کے دانوں کا لچھہ لئے دیکھا گیا۔اس لئے منور رانا اکثر یہ جملہ ان کو دیکھ کر کہا کرتے تھے کہ میرے گھر میں ایک طرف جنت ہے تو دوسری کعبہ ہے اور درمیاں میں بیٹھا یہ شیطان دن رات شاعری کرتا ہے ۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ رھی کہ انہوں ذاتی کتب خانہ بنا رکھا تھا ۔جب کوئی شاعری کا نیا مجموعہ کلام شائع تو  کتب فروش کو فون کرکے پہلے فرصت میں اسے حاصل کرتے ،اوپر پڑھنے کے بعد اپنی لائبریری کا خصہ بنا ددیتے ۔وہ زبان کے بادشاہ تھے، الفاظ کے سمندر تھے، ان کے پاس جملوں کا ایک وسیع و وعریض میدان تھا۔اس لئے جب وہ شاعری کرتے تو شاید الٖفاظ ان کے سامنے صف باندھ کر کھڑے ہو جاتے کہ اب مجھے بھی استعمال کرلیا جائے ۔
 اس مختصر سے تعارف میں عمیر بھائی نے کہا :یہ لڑکا لایا ہوں جس کے لئے اپنے کہا تھا کہ کوئی لڑکا ایسا لاؤ جو اچھا لکھنا جانتا ہو۔یہ میں نہیں کہہ سکتا کہ میں کیا اور کیسالکھتا ہوں۔کیونکہ آج تک کسی نے کچھ میرے متعلق لکھا نہیں۔کہنے کو تو میں بھی ایک ادنی سا لکھاری ہوں۔لکھتا زیادہ ہوں چھپتا کم ہوں۔شاید یہ چیزعمیر بھائی نے پرکھ لی تھی۔ان کو اس بات کا یقین تھا کہ یہ کام میں منظم انداز میں پایہ تکمیل کر پہونچا دوں گا۔
اس کے بعد ہماری گفتگو شروع ہوئی۔تو بیٹا سنو ایساہے کہ میں جو کچھ بولتا جاؤں گا تم صرف لکھتے جانا۔میں نے پانچو حواس کے ساتھ ان کی ساری بات کی ہامی بھرلی۔روزانہ دو بجے کے بعد کاوقت مقررہوا۔جس پر میں مدوامت برتی ۔اس کے بعد ہم اور عمیر منظر بھائی دونوں ساتھ میں وہاں سے واپس ہوئے۔ساتھ میں ہم دونوںاک جگہ  رُک کر خرم نگر میں شاداب کالونی کے سامنے ایک ہوٹل پر بہترین چائے نوش کی۔چائے نوشی کے دوران منظربھائی منور راناکے بارے میں بہت ساری خوبیاں بتا دیں اور دبے الفاظ میں یہ بھی بتا دیا کہ اگر کبھی غصے میں اناپ شناپ بولیں تو سن لینا یہ عقلمندی ہے۔
۔۔۔۔۔یہاں پر میں منظر بھائی کا ذکر نہ کروں تو شاید ہمارے لکھنے کا مقصد پورا نہیں ہوگا۔عمیر منظر کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے۔ان کے جیسا فیاض انسان میں نے اپنی زندگی میں نہیں دیکھا، ایک بڑے بھائی کی حیثیت سے، ایک دوست کی حیثیت سے، ایک مشفق استاد کی حیثیت سے، ایک اچھے شاعر کی حیثیت سے، ایک اچھے ناقد کی حیثیت سے، اور تنقیدی نقطہ نظر کا اگر موازنہ کیا جائے تو میرے نزدیک شمش الرحمن فاروقی صاحب کی تصور ابھر کر سامنے آجاتی ہے۔ویسے آج کے اس گرہ بندی کے دور میں کوئی کسی کا سگا نہیں ہے ایسا سنا کرتا تھامگر اب دیکھا بھی ہے، جانا بھی ہے، ان سب کے باوجود منظر بھائی بالکل منفرد نظر آتے ہیں۔
بات ان کی تنقید کی چل رہی تھی۔تو میں کہنا چاہوں گا کہ وہ جب بولنا شروع کرتے ہیں تو جو شعور انگیزی شمش الرحمن فاروقی کی تحریروں میں ملتی ہے وہ سب منظر کے زبانوں سے نکل رہی ہے۔سوچنے والی بات یہ ہے جس شخص کے اندر اتنی قارد الکلامی موجود ہو ایسے انسان سے کون دور بھاگ سکتا ہے۔ہاں ان کی ایک اچھی عادت ہے جو مجھے بہت پسند ہے  ان کے اندر انکساری، عاجزی،دیانت داری،دریا دلی کا جوملکہ موجود ہے کسی اورکے یہاں دیکھنے کو نہیں ملی۔باقی لوگ تو صرف ڈاکٹر اور پروفیسر نظر آتے ہیں۔ایک دوسری بات یہ ہے کہ وہ ہر کسی کی ادبی سطح پر مدد ضرور کرتے ہیں چاہے وہ شخص انجان ہی کیوں نہ ہو۔بہت باکمال ایسے لوگ ہوتے ہیں اللہ ایسے ذہن کو سلامت رکھے۔آمین 
تو بات چل رہی تھی منور راناصاحب کی۔یہ نو جوان شاعروں کے بابا تھے ۔جیسے اردو ادب میں بابائے اردو مولوی عبد الحق تھے ،ٹھی اسی طرح شاعری میں یہ  بابا کے درجہ کو پہونچتے ہیں ۔ہم اگلے روز ایک قلم اوربیاض لے کر منور صاحب کے گھر حاضر ہوئے۔ سواری کا انتظام نہ ہونے کی صورت میں مجھے عوامی رکشے کا سہارا لینا پڑا۔اب گرمی ہلکی ہلکی شروع ہو چکی تھی پسینے بھی ہونا شروع  ہو گیا تھا ۔اس دن شاید گرمی کچھ زیادہ تھی ،شرابو ر حالت میںدروازے پر پہونچا اردو دستک دی ۔
خادم نے دروازہ کھولا اوراندر آنے کو بولا۔اسے پہلے دن ہی منور صاحب نے تاکید کردی تھی کہ یہ جب آئیں بلا اجازت اندر بیٹھا دینا۔ میں اندر داخل ہو گیا ۔ میری حالت دیکھنے کے بعد انہوں نے کہا : کیا بات ہے بیٹا تم اتنے پسینے میں ڈوبے کیوں ہو ؟  چلو پسینے پونچھ لو ،شاید میں میرے بے بسی اندازہ وگیا تھا ۔
’’مجھے دیکھتے ہی انہوں نے کہا:’’آو بیٹا آو میں تمہارے انتظار میں بیٹھا تھا۔یہ وقت ہوتا ہے میں بالکل سکون سے رہتا ہوں۔ورنہ ہر وقت کوئی نہ کوئی نہیں ملاقاتی آ دھمکتا ہے اور میں ان کے اس تفریح مشاغل کا حصہ ہو جاتا ہوں۔باتیں اس انداز میں کرتے کہ گویا کبھی کبھی احساس ہوتا کہ یہ ایک شاعر نہیں ایک باپ بھی ہیں۔حالانکہ میرے والد کا انتقال 2011 میں ہو چکا تھا۔
باتیں چل نکلی  رائے بریلی  کی، اور یادوں کے سہارے وہ ساری باتیں بولتے رہے اور میں اپنا قلم برق رفتاری کے ساتھ دوڑاتا رہا۔یہ سلسلہ مسلسل بیس سے پچیس دن تک جاری رہا۔کبھی کبھی وہ باتوں کے درمیان اس قدر غم گین ہو جاتے کہ آنکھوں سے اشک جاری ہو جاتے تھے۔ بیشر وقت مجھے رومال اٹھا کر دینا پڑتا تھا۔دل کی فیاضی اور دلیری کا کوئی جواب نہیں تھا۔مشاعروں میں اپنی مرضی سے اسٹیج  پر جلوہ افروز ہوتے تھے جیسا دیکھا ویسا ہی پایا گیا۔تین شہروں کا چوتھا آدمی۔بچپن بریلی شہر، جوانی کولکاتہ میں، اور بوڑھاپا اودھ کی آغوش میں گذارا۔جس طرح سے وہ شاعری کرتے تھے وہ کسی سے چھپا نہیں ہے۔انہوں نے اردو شاعری میں ایک نئی جہت و تحریک کی ابتداء کی۔وہ عام موضوعات سے ہٹ کر ایک نئی راہ ہموار کی۔
ان کا کہنا تھا کہ:ہم اس راہ پر نہیں چلا کرتے جو عام ہو جائے۔میں اپنا راستہ خود بناتا ہوں۔مجھے میرے خدا پر یقین ہے اس کے سوا میں کسی بھروسہ نہیں کرتا اور نہ کروں گا۔اپنی جوانی کے دنوں کو یاد کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ: جب میں اپنی  زندگی کا پہلامشاعری پڑھنے گیا تھااس وقت کلکتہ میں کوئی مجھے جانتا نہیں تھا کہ میں بھی شاعری کرتا ہوں۔کیونکہ ابھی تک مجھے اسٹیج پر پڑھنے کا موقع دستیاب نہیں ہوا تھا۔ہمارے والد صاحب کے دوست جناب والی آسی اکثر و بیشتر ہمارے غریب خانے پر آتے تھے۔ان کی علمی و ادبی گفتگو سے مجھے سنورنے موقع عنایت ہوا تھا۔اتفاق سے ان دنوں میں  بڑا ٹرک چلایا کرتا تھا ہمارے شہر سے قریب ایک گاؤں مشاعرہ تھا اس میں والی آسی صاحب کو مدعو کیا گیا تھا۔اسی روز مجھے گاڑی لے کر اسی شاہ راہ ہر جانا تھا۔میں جانے لگا تو وہ راستے میں مل گئے۔میں گاڑی روک کر کہا: 
’’کہاں جا نا آسی صاحب۔‘‘
’’انہوں نے کہا : گاوں میں مشاعرہ ہے۔‘‘
’’میں نے کہا آئیے چھوڑ دیتا ہوں۔‘‘
جب ساتھ بیٹھ گئے تو ہم سے کہنے لگے کہ۔منور تم بھی چلو میرے ساتھ اس مشاعرے میں اور میں درخواست کروں گا کہ تم کو پڑھنے کا موقع دیا جائے۔اس مشاعرے کی روداد بتاتے ہوئے منور صاحب کی آنکھیں اشکبار ہوگئیں، جس طرح سے وہ اکثر و بیشتر مشاعرے میں شعر ہڑھتے پڑھتے رونے لگتے تھے۔اس دن اتفاق سے گرمی میں کچھ زیادہ اچھال تھا  مئی کا مہینہ شروع ہو چکا تھا۔فروری میں سردیا ڈھلان پر آجاتی ہیں۔
باہر کا دروازہ کھلا تھا وہ باہر جھانکتے ہوئے بڑے نم دیدہ ہو کر بولے:میری زندگی کا سب سے پہلا مشاعرہ تھا، تمام بڑے شاعر موجود تھے مشاعرہ شروع ہوا۔سارے شاعر باری باری پڑھتے رہے اور میں اپنی باری کا انتظار کرتا رہا۔مگر مشاعرہ ختم ہو گیا اور میری باری میں تمام سامعین کو گھر کی طرف روانگی کا اعلان ہو گیا۔میں بھی جس جوش میں گیا اسی سے زیادہ دکھ کے ساتھ واپس ہوا۔اور سوچ لیا کہ اب یہاں کبھی کسی مجلس محفل میں شامل نہیں ہونا ہے۔شاعری کرنا ان کا شوق تھا۔پیشہ کے اعتبار وہ ٹرانسپورٹ سے منسلک تھے۔ان تمام زمداریوں کے باوجود اپنی شاعری اور معشوقہ زولیخا کے لئے وقت نکال کیا کرتے تھے۔
ابتدائی شاعری انہوں نے عشق وعاشقی میں ڈوب کر لکھی ہے۔اس لئے کہ یہ دور ہر کسی زندگی میں آتا ہے کوئی اسے روکر گزارتا ہے تو کوئی اسے ہنس کر گزارتا ہے۔بے باکی اور دریا دلی ان کے گھٹی میں بسی تھی۔مشاعروں میں ان کا نام چلنے لگا تو انہوں اپنے پہلے مشاعرے کی ساری کسر نکال لی۔پہلے وہ مشاعرہ پڑھنے کی لالچ میں انتظار کیا کرتے تھے۔اور اس کے بعد وہ دور بھی ان کی زندگی میں آیا کہ مشاعرہ اب ان کی مرضی سے پڑھا جانے لگا۔
مچھلی کھانے کے بہت شوقین تھے۔ان کے مطابق دو سے تین کلو مچھلیاں وہ ایک وقت میں کھا لیا کرتے تھے۔یہ ان دنوں کی بات ہے جب وہ ایک استاد مانے جانے لگے تھے ہر مشاعرے کے بعد اپنے یار دوستوں کو اپنے پیسے بڑے سے اچھے ہو ٹل میں سب کو کھانا کھلاتے تھے۔اس کے بعد اس مشاعرے کی بخیہ ادھیڑنے کے بعد اپنے گھر کو روانہ ہوجاتے تھے۔شاعر وہ ہوتا ہے جو ہر باریک سے باریک شئے پر بہت باریک نگاہ رکھتا ہے۔اور پھر اسی نگاہ کے سفر کو اپنے الفاظ کا لبادہ اڑھا کر عوام کے پیش کردیتا ہے۔منور رانانے اپنی ادبی شخصیت خود بنائی ہے اللہ نے انھیں ایسا ادبی شعور عطا کیا تھا جسے پانا ہر کسی کے بس کی بات نہیں تھی۔وہی بنگال کا انقلابی ماحول جس میں انھوں نے جانے کتنے خواب بنے تھے وہ سب آنکھوسے دیکھا اور ایک جگہ سمیٹ کر رکھ دیا۔
مسجدیں کس نے گرائی، کون مورت لے گیا۔ ہم اسی الجھن میں اک دن مارکس وادی ہوئے۔۔۔۔۔منور رانا
اسی موحول میں منور رانا کی شخصیت سازی ہوئی۔
میں نے پھل دیکھ کر انسانوں کو پہچانا۔
جو بہت میٹھے ہوں اندر سے سڑے ہوتے ہیں۔
یہ سب اشعار وہ باتوں باتوں میں اتنی روانی کے ساتھ ادا کرتے تھے کہ کبھی کبھی میں ساری باتیں لکھنے سے قاصر رہ جاتا تھا۔جب دوبارہ پوچھتا تو مسکراتے ہوئے بولتے،صبح میں بادام کھا کر آیا کرو۔اگر پیسے نہ ہوں تو مجھ سے لے لو۔
میں ڈر کے مارے پھر کچھ بولتا ہی نہیں۔کچھ دیر سکوت کے بعد پھری وہی کہانی کا دریا ابھرتا اور اور اپنی روانی کے ساتھ بہتا رہتا تھا۔اور میں ان تمام قطروں کو اپنی بیاض سمیٹا چلا گیا ۔
مجھے بھی لکھنے اور سننے میں بہت خوشی بھی ہوتی تھی اوررشک بھی آتا تھا کہ کاش ہم اور پہلے یہاں آئے ہوتے تو آج ہم کسی لائق انسان نہیں تو کم سے کم ایک چھوٹے سے شاعر ہی بن گئے ہوتے۔لیکن خدا کو کیا منظور تھا چند دنوں کے بعد پھر ان کو دل دورہ پڑا۔فالج کا اثر ہوا۔ساتھ میں شوگر بڑھنے کی وجہ سے دائلاسس چلتی رہیں۔مارچ کی پندرہ تاریخ کو وہ پھر اسپتال میں داخل ہوئے۔اس کے بعد سے مسلسل وہ ہر پندرہ بیس دن پر جایا کرتے تھے۔ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اب یہ ہمارے درمیان نہیں رہ پائیں گے۔ خدا نے شاید کعبے اور مسجد کے درمیاں بیٹھے شیطان کی ملاقات کا بندوبس کر لیا تھا ۔جب کبھی ان کے بیار ہونے کی خبر ملتی ۔وہ ساری باتیں میری ذہنوں میں ابھرنے لگتی تھی ۔وہ چہرہ میری نظروں کے سامنے ناچنے لگتا ہے ،پھر وہی کیفیت طاری ہو جاتی کہ اب آگے کا قصہ سنو،ااور میں لکھنے کے لئے آمادہ وہ جاتا تھا ۔۔خدا نے شاید ابھی کچھ زندگی باقی رکھی تھی۔اگست ستمبر تک دو مہینے بالکل ٹھیک سے گزرے ہوں گے کہ اکتوبر مہینے میں پھر سے وہ بیمار ہوئے۔اور اس طویل بیمار ی کے بعد اب مالک حقیقی سے جاملے۔انا للہ وانا الیہ راجعون ۔خدا انھیں غریق رحمت کرے۔آمین 
ابن نثار ۔ لکھنو فون  نمبر 9036744140، mdibrahim289@gmail.com

میری کمزوری اور خامی بھی یہ ہے کہ نیک اور قابل انسان جب اپنی پوری عمر گزارے بغیر آخرت
کے لیے رخت سفر باندھتا ہے تو کلیجہ منہ کو آتا ہے اور جی میں آتا ہے کہ آسمان سرپر اٹھا لوں نیز آسمان زمین ایک کرکے اس طریقے سے دعا مانگوں کہ اللہ پاک اس فوت ہونے والے کی روح میں از سرنو جان ڈالنے پر مجبور ہوجائیں ۔ لیکن یکلخت خیال آتا ہے کہ میں پانی میں آگ لگانے کی کوشش کررہاہوں کہ اللہ کو کوئی مجبور نہیں کر سکتا ۔ مجبور تو یہ کائنات ہے ، اور پھر میں اپنی فکر کی بلندی سے اتر کرخون تھوکنے میں لگ جاتا ہوں۔
مثل مشہور ہے کہ ’’ خام کو کام سکھاتا ہے ‘‘ لیکن یہاں توخواجہ جاوید اختر مرحوم نے پروفیسر خواجہ مجیب ا لحق (مر حوم )اور ہمارے استاذ محتر م پروفیسر خواجہ وحید ا لحق (وحید عرشی مرحوم )جیسے علمی خا نوادہ سے متعلق ہونے کا ثبوت دینے میں ذرا بھی کوتاہی اور تغافل نہیں کیا ۔جاوید نے زندگی میں محنت اور حصول ِ تعلیم سے کبھی جی نہیں چُرایا۔کانکی نارہ میں رہتے ہوئے انہوں نے ہمیشہ اپنی توجہ اپنی تعلیم پر مرکوز رکھی اور اپنی دوسری توجہ انہوں نے اپنے دوستوں پر رکھی کہ جس سے بھی ایک بار ملتے وہ جاوید کا بھائی بن جاتا تھا۔مضافات سے شہر تک جاوید کے چاہنے والے اتنے بھائی ہو گئے تھے کہ اس خود غرض اور مطلبی دُ نیا میں اتنے زیادہ لوگوں کا بھائی بن جانا اور بھائی بنا لینا ایک امتیازی خصوصیت کا درجہ رکھتا ہے ، ایسی خاصیت و خوش بختی ہر کس و ناکس کے حصے میں نہیں آتی ہے۔جو لوگ پیکر ِ خلوص اور انسان نواز ہوتے ہیں ، اللہ ان کو ہی ایسے وصف سے نوازتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ میں نے جاوید کا کوئی مخالف نہیں دیکھا اور ساری عمروہ بھائیوں کا بھائی ہو کر جیتا رہا ۔ایسا سر تاپاپر خلوص شخص کو جب بھی باپ دادا کی فرسودہ دیواروں کے پُرانے مکان میں دیکھتا تو میری طبیعت چھوٹی ہو جاتی تھی ۔ جاوید بھی مجھ سے دوران ِ گفتگو اپنا ذاتی مکان نہ ہونے کا ذکر کر کے افسردہ ہو تاتھا۔روٹی کپڑاا ور مکان ہر انسان کی ازلی اور حتمی ضرورت رہی ہے۔انسان محنت کر کے کسی طرح روٹی اور کپڑے کا انتظام تو کر لیتا ہے لیکن مکان کی حصولیابی میں بعض لوگوں کی طویل عمر گزر جاتی ہے اور بیشتر افرادکی تو پوری’’ زندگی‘‘ گزر جاتی ہے۔سماجی اور ذہنی انتشار میں مکان سے محرومی بھی انسان کو ساری عمر مضطرب رکھتی ہے۔ اسلام کے نقشے کے مطابق پرُ سکون خاندان کی تعمیر کے لیے مناسب مکان کی کلیدی اہمیت ہے۔اگر ایسا مکان دستیاب نہ ہو ا تو اس مقصد سے اس انسان کے تمام منصوبے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔اور اس کے تمام عزائم ریزہ ریزہ ہوتے نظر آتے ہیں۔جس طرح ایک چادر کو سکون سے صرف ایک ہی آدمی اوڑھ سکتا ہے۔ اسی طرح ایک کمرے میں ایک خاندان کا گزارا پریشانی اور پشیمانی کا بھی سبب بن جاتا ہے اگر مکان کرایہ کا ہو تو انسان خود کو بے قدر وبے وقعت بھی سمجھتا رہتا ہے ۔گھر کا خواب دیکھنے کے لیے نیند کی ضرورت نہیں ۔کھلی آنکھوں سے اپنا ذاتی مکان کا خواب دیکھنے کا حق سبھی کو ہے۔ عرفان صدیقی نے درست کہا ہے کہ
اُ ٹھو یہ منظر شب ِ تاب دیکھنے کے لیے
کہ نیند شرط نہیں خواب دیکھنے کے لیے
یہ خواب خواجہ جاوید اختر نے دیکھا تھااور اللہ نے خواجہ جاوید اختر کے ساتھ ان کے بڑے بھائی خواجہ احمد حسین کے خواب کو بھی تکمیلیت عطا کیا ۔جاوید اختر کے بڑے ماموںپروفیسر مجیب ا لحق کو اللہ نے اپنا ذاتی مکان عطا کر دیا ۔لیکنچھوٹے ماموں پروفیسر وحید عرشی( خوا جہ وحید عرشی) اور خواجہ شریف ا لحق ( خواجہ احمد حسین کے والد بزرگوار) نے کرایہ ہی کے مکان میں ساری عمر گزار دی ۔خواجہ احمد حسین کوہائی اسکول کی ملازمت کے باجود ۵۰ سال کی عمر کے بعد اپنے ذاتی گھر کی تعمیرکی سعادت ہوئی۔حسنِ اتفاق سے ان کے چھوٹے بھائی خواجہ جاوید اختر ملازمت کی وجہ سے کانکی نارہ چھوڑ کر ا لہٰ آباد میں مقیم ہو گئے۔ جاوید کی وفات کے تین سال قبل ہی ان کو اپنے گھر کی تعمیر کی توفیق ہوئی ۔دونوں بھائی خوش تھے کہ جس ضرورت کو ان کے والد اور ماموں پروفیسر وحید عرشی پورا نہیں کر سکے ، اس کو سماجی اور سیاسی دلنواز شخصیت خواجہ احمد حسین اور خواجہ جاوید اختر نے انجام تک پہنچا دیا ۔اولاد جب ترقی اور کامیابی کے معرکے سر کرتی ہے تو سب سے زیادہ خوشی اور شادمانی والدین کو ہوتی ہے۔جس ضرورت اور خوشی کو والدین اپنا مطیع بنا نے سے قاصر رہے ۔اس کا قلق دونوں بھائیوں کو بھی شدت سے رہا۔
خواجہ جایوید اختر کے بڑے بھائی آج خواجہ احمد حسین (ببّو) کی آنکھوں میں جھانک کر دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی آنکھیں جیسے کہہ رہی ہوں کہ جاوید جیسے بھائی کے لیے میں اگر روزانہ آنسو بہاؤں تو کم ہے ۔ بلکہ ان کے آنسو جیسے یہ کہہ رہے ہوں
تو جاوید ؔہوے کا کچھ پاس رکھتا تعلق فرشتوں سے کچھ خاص رکھتا
خواجہ احمد کو اپنی ماں اور والد کے بعد کسی سے حقیقی عقیدت و محبّت تھی تو وہ خواجہ جاوید اختر تھا۔یہ بھی قدرت کا عجب ا نتظام ہے کہ جس کو ٹوٹ کر چاہیے وہ جلد ہی مفارقت کا داغ دے جاتا ہے۔ ۔سب کچھ اسی طرح ہے ۔ جاوید کا گھر ، پلکوں پر بٹھا کر دل و جان سے پیار کرنے والی پیکرِ حیا اور شوہر کی طابعداری میں یکتا مرحومہ، قدرت کے انتظام سے بے خبربیٹیوں کی معصوم آنکھیں ، بڑے بھائی کا اپنا ذاتی گھر لیکن ادھورا و شکستہ جسم و دماغ ، اور دل میں ایک یاس ۔ بس یہی یاس ہی رہ گئی ہے سبھوں کے پاس !
در اصل جاوید کا چرچا اس لیے بھی نکل آتا ہے کہ وہ فقط قلمکار ہی نہیں تھا ۔ اچھّا اور خوش گلو شاعر ہونا دونوں جہاں میں کامیابی کی کسوٹی نہیں ہے۔ اس دارِ فانی میں اربابِ سخن شہرت اور عزّت کا حامل ہو سکتے ہیں لیکن اللہ کی دُنیا میں سُر خُرو ہونے کے لیے جس چیز کی ضرورت ہے وہ ہے آدمیت اور انسانیت۔ یہ وصف تلاش کرنے کی کوشش کی جائے تو انگلیوں پر ایسے قلمکار شمار میں آئیں گے ۔قلمکار ہونا کمال نہیں ، قلمکار ہونے کے ساتھ (انسان کہلانے کے لیے قلمکار ہونا بھی لازمی نہیں )افضل انسان ہونا کمال اور قابل فخر بات ہے اور بلا شبہ جاوید کی طینت و سیرت اسے انسان ہونے کا سرٹیفیکیٹ عطا کرتی ہے۔ا خواجہ جاوید اختر جنّت پہنچ چکا ہے جہاں سے کوائی واپس نہیں آتا ۔ اسے اب اس دنیا میں ہم نہیں دیکھ سکتے مگر وہ آج بھی ہماری یادوں میں ’’ جاوید ‘‘ نظر آتا ہے ۔ ہمیشہ اپنے شعر کا یہ مصرعہ یاد آتا ہے کہ چلے جاتے جاویدؔ جلدی بھی کیا تھی
زندگی کا سب سے بڑا اعزاز لوگوں کا پیار پانا ہے جس کا شرف بلا شبہ خواجہ جاوید اختر کو حاصل ہو اہے۔
جاوید کی شاعری ہمارے لیے اس کو جانچنے کا پیمانہ نہیں ہے۔انسان اگر صحیح معنوں میں انسان ہے تو انسان ہوناہی سب سے بڑا قلمکا ہونا ہے اور سب سے بڑ افنکار بھی ، کیوں کہ جس کو زندگی کا سلیقہ آگیا اسے دونوں جہاں کو جیتنے کا ادراک بھی بخوبی ہوتا ہے۔باعث ِ افتخار ہیں جاوید کے والدین کہ انکا جاوید مر کر بھی جاوید ہے ۔کچھ ایسی یادیں ہوتی ہیں جن سے پیچھا چھڑانے کے لیے دل کھٹا کرنا پڑتا ہے۔ اچھے لوگوں کو یاد کرنے سے کچھ اپنے گناہ کے ہلکا ہونے کا احساس ہوتا ہے۔ جاوید اختر مجھے عزیز تھا ۔ اس لیے یوم ولدت یا یوم وفات پر ہی مخصوص نہیں ، کسی بھی طرح جب وہ یادآ ّتاہے تو میرے دل کے پاس میرا یہ شعر آکر یہ احساس دلانے لگتا ہے
عمر کم اور جاوید کا غم یاد آتے ہی آنکھیں ہوئیں نم
دراصل خواجہ جاوید اختر کی تعلیم اور شاعری میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ماحول کا اثرہے کہ جاوید سرتاپا تہذیب کا گہوارہ تھا۔جاوید کی شاعری شروع سے ہی عوام الناس کی پسندبن گئی تھی۔ شمس الرحمٰن فاروقی جیسے عواقب بیں اور او لو البصار قلم کار جب خواجہ جاوید کی شاعری کو آنکھوں پر رکھتے تھے تو میرے جیسے شخص کاجاوید کی شاعری پر مزید کچھ لکھنا مناسب نہیں ہے۔ابھی جاوید کی شاعری کے دھوم مچانے کا وقت تھا لیکن اکثر موت ایسے لوگوں کو پسند کر لیتی ہے جس سے عوام بھی بے حد اور بے پناہ محبت کرنے لگ جاتے ہیں۔ میرے استاد محترم خلش امتیازی اور پروفیسر وحید عرشی کی بھی خوبیاں موت کے فرشتوں کو بھا گئیں اور وہ ان کو کم عمری میں ہم سے چھین کر لے گئے۔ماہ تمام بننے سے قبل تعلیم و تعلم کے کئی روشن چراغ بجھ جائیںتو چاہنے والوں کے دل بھی بجھ جاتے ہیں۔
نہیں آپ ہوں گے کبھی طاقِ نسیاں
جاوید کی یہ خوبی ہی ہے کہ آج تک ہم لوگ اسے بھول نہیں سکے ہیں۔الٰہ آباد سے جب جاوید کانکی نارہ آتا تھا تو میرے جیسا ہمتن مصروف رہنے والی کولکاتا کی آنے جانے کی مصروفیت کے باوجود جاوید کے لیے وقت نکال لیتا تھا اور ہم کئی دوستوں کے ساتھ عید سے پہلے والی رات کو رت جگا کر کے ملاقات کے توٹ جانے والے سلسلے کو جوڑنے بیٹھتے تھے۔ ساری سا ہم اشعار اور لطائف اور سرگزشت کو موضوعِ گفتگو بناتے تھے۔ اپنے وقت کی قلت کا احساس نہیں ہوتا تھا ۔
مثل مشہور ہے کہ ’’ ساتھ کے لیے بھات چھوڑا جاتا ہے‘‘
اللہ خواجہ جاوید اختر کے ساتھ نواش و کرم کا معاملہ کرے۔