Zaheer Dehalvi

ظہیرؔ دہلوی(۱۸۳۵-۱۹۱۱ء)کا پورا نام سید محمد ظہیر الدین حسین رضوی تھا۔ ان کا سللہ نسب حضرت شاہ نعمت اﷲ ولی کے توسط سے حضرت علیؑ تک پہنچتا ہے۔ ظہیرؔ دہلوی کے اہل خاندان مغلیہ سلطنت میں مختلف عہدوں پر فائز رہے۔ ظہیر کے دادا امیر امام علی، اعلیٰ درجہ کے خوشنویس تھے، بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے اس فن میں استاد تھے۔ ان کے انتقال کے بعد بادشاہ ظفر نے ظہیر کے والد سید جلال الدین حیدر سے خوشنویسی کے فن میں باقاعدہ اصلاح لی۔ ظہیرؔ دہلوی کا اوائل عمری سے ہی قلعہ معلیٰ سے تعلق پیدا ہوگیا تھا۔ بادشاہ ظفرؔ سے خود انہوں نے فن خوشنویسی کے اصول سیکھے۔ جب ذرا ہوش سنبھھالا تو داروغہ ، ماہی مراتب کے عہدہ پر فائز کئے گئے اور دربار سے انہیںخطاب ’’ راقم الدولہ‘‘ کا عظا ہوا۔ ظہیرؔ، داغ کے ہم عصر اور لگ بھر ہم عمر تھے اور ایک ہی ماحول میں پرورش پائی تھی۔ لیکن وہ ظہیرؔ دہلوی کی بہت عزت کرتے تھے۔ داغؔ ہی کی طرح ظہیرؔ دہلوی نے بھی خاقانیٔ ہنداستاد ذوقؔ دہلوی کے آگے زانوئے تلمذ تہہ کیا ۔ ظہیرؔعمدہ شاعر تھے۔ان کے بعض اشعار تو ضرب المثل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ مثلاً
یوں تو ہوتے ہیں محبت میں جنوں کے آثار
اور کچھ لوگ بھی دیوانہ بنا دیتے ہیں
وہ کچی آگ ہے جس میں دھواں ہو
وہ جھوٹا عشق ہے جس میں فغاں ہو
بہت معمورۂ ہستی میں اجڑے گھر نکلتے ہیں
جہاں کھودو وہیں بنیاد کے پتھر نکلتے ہیں
زیر نظر مضمون میں ہمیں ان کی نثر کی کتاب ’’ داستان غدر‘‘ کا سیر حاصل جائزہ لینا مقصود ہے۔
ظہیرؔ دہلوی کے نثری سرمائے میں ’’ داستان غدر‘‘ کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ ’’داستان غدر‘‘ ان کی خود نوشت سوانح ہے۔ اور خود نوشت سوانح کے فن ، اصول اور معیار کے تقاضوں کو پورا کرتی ہے۔ اس کی اہمیت اس وجہ سے بھی ہے کہ اگر ظہیرؔ اپنی آپ بیی یان نہیںکرتے تو نہ صرف ان کے بارے میں ہماری معلومات بہت محدود ہوتیں۔ بلکہ اس دور کی معاشرت اور ان کے عہد کی بعض سیاسی، تہذیبی اور ادبی روایتوں سے بھی ہم سرسری گزر جاتے ۔ گوکہ ان تقاضوں سے تارخی ہی عہدہ بر آہوسکتی ہے۔ لیکن ظہیرؔ نے بچشم خود جن حالات کامشاہدہ کیا اور جس واردات سے انہیں گزرنا پڑا اور جن تجربات سے انہوں نے زندگی کو لمحہ لمحہ سلیقہ بخشا ان کیفیتوں، صورتوں، حادثوں اور واقعوں سے ظہیرؔ کی آپ بیتی کی افادیت اور اہمیت کہیں زیادہ ہوگئی ہے۔
’’داستان غدر‘‘ کا اولین مطبوعہ نسخہ مطبع کریمی لاہور سے نبیرۂ آزاد آغا محمد طاہر نے شائع کیا تھا۔ حقوق اشاعت بھی انہیں کے نام محفوظ تھے۔ آغا محمد طاہر کو ’’داستان غدر‘‘کا قلمی نسخہ ظہیرؔ کے نواسے میر اشتیاق حسین شوق سے دستیاب ہواتھا۔ چنانچہ انہوں نے واضح طور پر اس کا اعتراف بھی کیا ہے۔
’’حضرت ظہیرؔ کے نواسے میر اشتیاق حسین صاحب شوقؔ دہلوی نے اس کتاب کا ذکر کیا اور کچھ دنوں بعد مسودہ بھی عنایت کیا جو عبرت کی سچی تصویر ہے۔‘‘…… ’’اس کے شائع کرنے کا فخر اگرچہ مجھے حاصل ہوا ہے مگر اصلی شکریہ جناب شوقؔ کا پبلک کو ادا کرنا چاہئے جنہوں نے اس تحفہ کو سنبھال کر رکھا ۔‘‘(۱)
سروق پر کتاب کا نام ’’داستان غدر‘‘ یا طراز ظہیرؔ ی درجہ ہے۔ آغا محمد طاہر نے حکیم اجمل خاں مرحوم کے نام اس کتاب ا انتساب کیا ہے ڈیمائی سائز (۲۲×۱۸÷۴) پر ۲۱؍ سطری لکھی ہوئی ۲۵۷صفحات کی اس کتاب کی تعداد اشاعت ایک ہزار اور قیمت دو روپئے درج ہے۔ وہ اتفاق کہ اس نسخہ یعنی طبع اول کی جو جلد مجھے دستیاب ہوئی ہے اس کا آخری صفحہ غائب ہے اور ابتدائی صفحات میں سنہ اشاعت درج نہیں ہے۔ اس لئے حتمی طور پر ’’ داستان غدر‘‘ کے سنہ اشاعت کی نشاندہی محال ہے ۔ تاہم قیاس اغلب ہے کہ ظہیرؔ کے انتقال (۱۹۱۱ء) کے بعد جب میر اشتیاق حسین شوق ، حیدرآباد سے دلی واپس آئے تو کتاب مذکورہ کا قلمی نسخہ آغا محمد طاہر نبیرۂ آزادکے حوالے کیا ہوگا۔ لہٰذا ’’داستان غدر‘‘ کے پہلے ایڈیشن کی اشاعت غالباً اس کے چار پانچ سال کے بعد یعنی ۱۹۱۴ء میں ہوئی ۔ اس قیاس کی توثیق اس سے بھی ہوتی ہے کہ صلاح الدین احمد نے ’’داستان غدر‘‘کے دوسرے ایڈیشن (۱۹۵۵)میں گزارش کے عنوان سے لکھا ہے کہ ’‘یہ کتاب آج سے کم و بیش چالیس برس پیشتر حبیب مکرم آغا طاہر صاحب نبیرۂ آزاد کے اہتمام سے چھپی تھی۔ (۲)
’’داستان غدر‘‘ کا دوسرا ایڈیشن اکادمی پنجاب لاہور کے زیر اہتمام جون ۱۹۵۵ء میں سلسلہ مطبوعہ اکادمی نو اور ادب شمارہ ۶ کے تحت شائع ہوا۔ اس کی اشاعت میں وزارتِ تعلیمات، حکومت پاکستان نے جزوی امداد بھی دی تھی۔ اس ایڈیشن کے دوسرے صفحے کے بعد آرٹ پیپر پر ظہیرؔ دہلی کی ایک نادر تصویر بھی شامل ہے اور تصویر کے نیچے یہ شعر درج ہے
مژگانِ یار ہوں یا رگِ تاک بریدہ ہوں
جو کچھ کہ ہوں سو ہوں غرض آفت رسیدہ ہوں
عام طور پر لائبریریوں میں ’’داستان غدر‘‘ کا دوسرا ایڈیشن ہی ملتا ہے جو پہلے ایڈیشن کا نقشِ ثانی ہے لیکن اس کی ترتیب وتصحیح میں نظیر لدھیانوی نے جابجا ضمنی عنوانات قائم کردیئے ہیں۔ پہلے ایڈیشن کے بعض ضمنی عنوانات کو بھی بدل دیا ہے۔ کہیں کہیں فٹ نوٹس تحریر کئے ہیں جن سے اس ایڈیشن کی افایت میں اضافہ ہو ا ہے ، مگر اصل مسودہ کی ترتیب میں خواہ معمولی تبدیلی ہی کیوں نہ کی گئی ہو اصولی طور پر مناسب نہیں کہی جاسکتی ۔ نظیر لدھیانوی کا یہ دعویٰ کہ ’’مصنف کی عبارت میں نہ کوئی کمی بیشی کی گئی نہ ترتیب بدلی۔‘‘پوری طرح صحیح نہیں ہے۔ طبع دوم کی ترتیب و تہذیب کے فرائض جناب صلاح الدین احمد کی نگرانی میں لدھیانوی نے انجام دیئے ہیں اور مضامین کے اعتبار سے کتاب کو دس ابواب میں منقسم کیا ہے ۔ پہلا باب ظہیرؔ کے ابتدائی حالات پر مشتمل ہے ، دوسرے باب میں دلی دربار کے کوائف بیان کئے گئے ہیں۔ تیسرا اور چوتھا باب ہنگامہ غدر ۱۸۵۷ی کی تفصیلات بہم پہنچاتے ہیں۔ پانچویں باب سے دسویں باب تک ظہیرؔ نے اپنی سرگزشت حیات کے ان منتشر اوراق کو سمیٹا ہے جو حالات کی آندھیوں کی زد میں مختلف ریاستوں کے گلی کوچوں میں پناہ مانگتے رہے۔
’’داستان غدر‘‘ظہیرؔ کی داستانِ حیات ہی نہیں بلکہ ایک عہد کی جیتی جاگتی تصویر ہے۔ چنانچہ غدر ۱۸۵۷ء کے حالات کی تفصیل اور دلی کی تباہی کے مرقعے اس کتاب میں دیکھے جاسکتے ہیں۔
ظہیرؔ دہلوی نے اس خود نوشت میں اپنے محسنین کا بڑے خلوص سے ذکر کیا ہے اور مختلف ریاتوں کے حالات ، کیفیات اور معاشرتی اقتصادی اور تہذیبی بیان کے علاوہ ادبی سرگرمیوں کوبھی جگہ دی ہے۔
نبیرُ آزاد آغا محمد طاہر طبع اول میں ’’داستان غدر‘‘کو متعارف کراتے ہوئے رقم طراز ہیں:
’’ یہ حضرت ظہیرؔ کی سوانح عمری نہیں بلکہ داستان غدر ہے۔حضرت جیسا ذی مرتبت انسان اس انقلاب کی جن منزلوں سے گزرا ہے اس کا صحیح فوٹو اور غذر کے مفصل حالات اس سے بہتر نہیں مل سکتے۔ اس میں تاریخ بھی ہے، غم و الم کی داستانیں بھی، ساتھ نثر اردو کی ابتدائی حالت اور اس زمانے کا طرز گفتگو کا طریقہ اور تحریر ۔ غرض کہ بہت کچھ اس مختصر کتاب میں جمع ہے۔ حضرت ظہیرؔ مرحوم کے حالات اس کتاب میں مفصل درج ہیں فقط اتنا باقی ہے کہ یہ ظہیرؔ بلکہ ثانی ظہیرؔ(۳) تمام عمر میں بہت حیران و پریشان رہا مگر آخر کے چند لمحے سلطان دکن کی یادگاہ پر اچھے گزر گئے اور آخر ۱۹۱۰ء میں وہیں داعیٔ اجل کو لبیک کہا اور مرقد نعمت خاں عالی میں آرام کیا ۔‘‘(۴)
طبع دوم میں نظیر لدھیانوی لکھتے ہیں :
’’ان کی زندگی چونکہ انقلاب زمانہ کا مرقع تھی اس لئے انہوں نے اپنے حالات میں نہ صرف اپنی نجی اور ذاتی روداد ہی لکھی بلکہ ماحول کے حالات بھی تحریر کئے چنانچہ اس کتاب میں شاہ ظفر، قلعہ معلی ۱۸۵۷ء کے غدر اور غدر کے بعد کی کیفیت، ریاست الور، ریاست جے پور، ریاست ٹونک اور ریاست حیدرآباد کے حالات بھی اجمالی طور پر بیان کئے گئے ہیں۔‘‘
مصنف نے ۱۸۵۷ء کے غدر کے حالات وہی لکھے جو انہیں اپنے گردر پیش نظر آئے یا پھر ان حادثات کا ذکر کیا ہے جو انہوں نے یا ان کے عزیزوں کو پیش آئے ۔(۵)
’’چونکہ ظہیرؔنے اس کتاب میں کہیں بھی کوئی تاریخ یا سن نہیں لکھا۔ اس لئے یہ طے کرنا مشکل ہے کہ یہ کتاب ظہیرؔ نے کس سن میں تحریر کی ۔ چونکہ اس میں میر محبوب علی خاں اور ریاست حیدرآباد کے حالات بھی ہیں اس لئے قیاس یہ ہے کہ انہوں نے یہ کتاب حیدرآباد میں قلمبند کی ہوگی ۔ حیدرآباد وہ ۱۹۱۰ء میں گئے اور ۱۹۱۱ء میں وہیں فوت ہوگئے۔
ممکن ہے کہ انہوں نے کتاب کا بیشتر حصہ پہلے سے لکھا ہوا ہو اور حیدرآباد میں اس کی تکمیل کی ہو ۔‘‘ (۶)
سن ۱۸۵۷ء کی بغاوت یا غدر یا پہلی جنگ آزادی ، آپ جو بھی نام دیں اس لہولہان واقعے کی داستان جن تحریروں میں نمایاں ہے ان میںفیروز شاہ کی مثنوی، جیون لعل کے روزنامچے منشی عنایت حسین کی ’’ایام غدر‘‘ اور معین الدین حسن خاں کی ’’خدنگ غدر‘‘ کے علاوہ ظہیرؔ دہلوی کی ’’داستان غدر‘‘کا ذکر ناگزیر ہے۔ (۷) خصوصاً معین الدین حسن خان کی ’’ خدنگ غدر‘‘ اور ظہیرؔ دہلوی کی ’’داستان غدر‘‘ میں جو قدر مشترک ہے اس کا مختصر احوال درج ذیل ہے۔
۱۔معین الدین حسن خان اور ظہیرؔ دہلوی دونوں ہی ۱۸۵۷ء کے واقعات کے چشم دید گواہ ہیں۔
۲۔چونکہ دونوں ہی دہلی کے المناک واقعے کے عینی شاہد ہیں اس لئے دہلی کے المیہ کو اپنی آنکھوں میں سمیٹے ہوئے در در بھٹکتے ہیں اور بار بار دلی کی طرف حسرت کی نظر کرتے ہیں۔
۳۔دونوں ۱۸۵۷ء کے تمام حالات واقعی اور سچے بیان کرتے ہیں اور اس سلسلے میں انہیں ’’راست بیانی اور صدق گفتار‘‘ سے کام ہے۔
۴۔معین الدین حسن خاں اور سید ظہیرؔ دہلوی میں بادشاہ بہادر شاہ ظفر سے تعلق خاطر اور بے پایاں ہمدردی کا جو جذبہ تھا اس کا احساس و اظہار جا بجا ان کی تحریر میں جھلکتا ہے۔
۵۔دونوں حضرات اپنے داغ اتہام کو دھونے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں اور ’’صاحبان عالی شان‘‘ کے تدبر اور ان کے اعلیٰ کردار کے اوصاف میں رطب اللسان نظر آتے ہیں۔
۶۔دونوں کو دلی کی تباہی کے ساتھ ہی ساتھ بے قصور رئیسان قوم کی بربادی سینکڑوں لوگوں کو پھانسی اور شہزادگان کے قتل کا شدید غم ہے مگر اس قیامت صغریٰ کے باعث شدت اضطراب میں ان ہندوستانیوں کو ہنگامہ غدر کا مورِ قرار دیتے ہیں جونہ صرف لشکری ہی تھے بلکہ عوام کی ایک تعداد بھی ان میں شامل تھی۔
۷۔دونوں کتابوں کا اسلوب بیان سادہ، سلیس اور عام بول چال کے نزدیک ہے خاص طور سے دلی کے محاورے اور روز مرہ کا لطف ان میں موجود ہے لیکن داستان غدر کی ادبی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیاجاسکتا۔
تاہم ان ودنوں’’داستانوں‘‘ کے مابین نمایاں فرق یہ ہے کہ معین الدین حسن خاں نے کرنل مٹکاف کی فرمائش پر ۱۸۸۷ء میں اردو میں ’’خدتگ غدر‘‘ کے نام سے غدر کیواقعات پر مشتمل ایک داستان مرتب کی۔ اس کا منشا یہی تھا کہ غدر کے وہ تمام واقعات جو کچھ دیکھے اور سنے راست بازی اور صدق بیانی سے کتاب میں درج کئے جائیں۔مصنف کی خواہش کے احترام میں کرنل مٹکاف نے ’’خد نگ غدر‘‘ کا انگریزی ترجمہ ۱۸۹۸ ء میں انگلستان سے شائع کیا۔ خدنگ غدر میں غدر ۱۸۵۷ء کی تفصیلات ’’داستان غدر‘‘ کے مقابلہ میں کہیں زیادہ ہیں اور یہ کتاب واقعتاً تاریخی اہمیت کی حامل ہے۔ مصنف کے حالات اور اس کی ذاتی زندگی کی تفصیلات سے اسے کوئی واسطہ ہیں۔ البتہ جہاں کہیں اس کی ضرورت پڑتی ہے مصنف بھی اس داستان کے ایک کردار کی حیثیت سے ابھرا ہے۔
’’داستان غدر‘‘دراصل ظہیرؔ کی خود نوشت سوانح حیات ہے (۸) جو بپتا ان پر پڑی اس کا احوال بڑی درد مندی کے ساتھ انہوں نے اپنی آپ بیتی میں بیان کر دیا ہے۔ غدر کے واقعات اورحالات پر کتاب لکھنا مقصود بالذات نہیں تھا۔ چونکہ وہ قلعہ معلی سے وابستہ تھے۔ اس لئے جب قلعہ معلی پر تباہی کے بادل چھائے تو انہیں بھی غدر کے مصائب کا سامنا کرنا پڑا۔ زندگی کی طویل مسافت میں وہ غدر کے ان واقعات کو کس طرح بھول سکتے تھے۔ جنہوں نے انہیں مستقل حیرانی و پریشانی کے عالم میں مقید کر رکھا تھا۔ لہٰذا داستان غدر اردو کی خود نوشت کے تقاضوں کو پورا کرتی ہے۔ البتہ غدر کے واقعات اور دلی کی تباہی کی داستان کی تفصیل اس میں اس لئے بیان ہوتی چلی گئی ہے کہ ظہیرؔ براہ راست ان واقعات سے متاثر ہوئے ہیں اور ان واقعات و تفصیلات کے ذکر کے بغیر خود ان کی آپ بیتی ادھوری رہتی۔
منشی عنایت حسین خاں نے ’’ایام غدر‘‘ میں قلعہ معلی کی جس زوال پذیر تہذیب کے نقشے پیش کئے ہیں اور دلی کے تباہی کے منظر جو دکھائے ہیں کم و بیش ظہیرؔ کی داستان غدر کے پہلے حصہ میں بھی اسی مغلیہ تہذیب و معاشرت کی جیتی جاگتی تصویر یں نظر آتی ہیں۔ اور لال قلعے کی عبرت انگیز صورت حال ماضی کو حال میں تبدیل کر دیتی ہے۔
ٍٍآغا محمد طاہر نے ’’داستان غدر‘‘کے اولین مطبوعہ نسخے میں یہ جو لکھا ہے کہ : یہ ظہیرؔ کی سوانح عمری نہیں بلکہ ’’داستان غدر‘‘ہے‘‘۔
توہم بھی طبع دوم کے مرتب نظیرؔ لدھیانوی کی زبان میں یہی دہرائیں گے کہ ظہیرؔ کی ’’زندگی چونکہ انقلاب زمانہ کا مرقع تھی۔ اس لئے انہوں نے اپنے حالات میں نہ صرف اپنی نجی اور ذاتی روداد ہی لکھی ہے بلکہ ماحول کے حالات بھی تحریر کئے ۔‘‘
آغا محمد طاہر کا یہ بیان بھی محل نظر ہے کہ (ظہیرؔ کی زندگی کے) ’’آخر کے چند لمحے سلطانِ دکن کی بارگاہ پر اچھے گزر گئے ‘‘۔ حقیقت یہ ہے کہ حیدرآباد میں ظہیرؔ کو محض پریشانیوں اور آفتوں کا عروج نصیب ہوا۔ خود ظہیرؔ نے داستان غدر کے آخری صفحات میں حیدرآباد کے قیام کو ناگفتہ بہ بتایا ہے۔ ان کی داستان حیثیت کے باوجود وہاں کے مشاعروں میں انہیں ناقدری کا سامنا کرنا پڑا اور ان کی عزت و آبرو پر بن آئی ۔ سلطان دکن پر داغؔ کی سفارشوں کا بھی اثر نہ ہوا اور ظہیرؔکو مرتے دم تک ان کی زیارت نصیب نہ ہوسکی۔ البتہ مہاراجہ کشن پرشاد نے تھوڑا سہارا دیا تو زندگی کی چند سانسیں لینے کی انہیں فرصت مل گئی ورنہ حیدرآباد کا قیام ظہیرؔ کے لئے کسی طرح پر سکون نہ تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ جو قدر ومنزلت انہیں دکن میں ملنی چاہئے اس کا عشر عشیر بھی نہ ملا۔
حیرت ہے کہ ظہیرؔ کے نواسے میر اشتیاق حسین شوقؔ نے آغا محمد طاہر سے ’’داستان غدر‘‘کے مسودے کا ذکر کیا اور بعد میں یہ قلمی داستان ان کے سپرد بھی کر دی لیکن ظہیرؔکے سال وفات سے آغا محمد طاہر بے خبر رہے۔ مرزا شوقؔ نے ۱۹۱۱ء میں ظہیرؔ کے انتقال کے بعد حیدرآباد کوخیر باد کہا تھا۔ اس سے قبل وہ اپنی والدہ اور اپنے نانا ظہیرؔدہلوی کے ساتھ حیدرآباد ہی میں رہتے تھے۔ دلی والوں کے لئے ظہیرؔ کے انتقال کی خبر کوئی معمولی سانحہ نہ تھی ۔ ان کے سال وفات کے سلسلہ میں آغا محمد طاہر نے ظہیرؔ کا سنہ وفات کسی سہو کی بناء پر ۱۹۱۰ء لکھ دیا ہے جبکہ ان کا انتقال مارچ ۱۹۱۱ء میں ہوا۔ نظیر لدھیانوی نے داستان غدر کے دوسرے ایڈیشن میں سنہ وفات ۱۹۱۱ء لکھا ہے ، لیکن حیدرآباد میں ظہیرؔ کی آمد کا سال ۱۹۱۰ء قرار دینے میں ان سے بھی سہو ہوا ہے۔
یہ بات کسی ثبوت کی محتاج نہیں ہے کہ ظہیر ؔ کو حیدرآباد بلانے میں داغؔ کے اصرار کو دخل تھا۔ ظہیرؔ ان کی زندگی ہی میں ٹونک سے حیدرآباد مستقل قیام کے لئے روانہ ہوگئے تھے۔ ادھر ٹونک نہ پہنچنے پر ان کا نام رجسٹر سے خارج کر دیاگیا، ادھر داغؔ سلطان دکن تک ظہیرؔ کی رسائی کے لئے کوشاں رہے لیکن ناکام رہے۔ داغؔ نے ۱۹۰۵ء میں وفات پائی۔ انشائے داغؔ میں احسن مارہروی نے داغؔ کا ایک خط شائع کیا ہے جس میں انہوں نے حافظ میر شمس الدین فیض کے مزار پر منعقد ہ مشاعرہ میں ترکی صاحب ( استاد مہاراجہ کشن پرشاد شاد) کے نفاق پر اظہار افسوس کرتے ہوئے اپنے شاگردوں سے بھی ناراضگی ظاہر کی ہے کہ وہ ظہیرؔ دہلی جیسے اعلیٰ پائے کے شاعر کے ساتھ زیادتی کریں کہ ان کا نمبر توڑ کر جلیل کو پڑھوایا گیا (۹) مولانا احسن مارہروری نے داغؔ کی روز مرہ زندگی کے پوست کنندہ حالات لکھنا شروع کئے تھے اور اسے ایک روزنامچے (ڈائری) کی شکل دی۔ یہ ڈائری رفیق مارہروی ’’بزم داغؔ‘‘ کے خط میں مرقوم واقعہ کو یکم مارچ ۱۹۰۱ء کو درج کیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ظہیرؔ ۱۹۰۱ء میں حیدرآباد میں وارد ہوچکے تھے۔
’’داستان غدر‘‘میں طبع دوم میں نظیر لدھیانوی نے ذیلی عنوانات اور فٹ نوٹس کے اضافوں کے علاوہ کوئی خاص کمی بیشی نہیں کی ہے، لیکن تصحیح کے نام پر جو لفظی رد و بدل کیا ہے اس سے عبارت میں کچھ نہ کچھ فرق پیدا ہونا یقینی تھا۔ بعض اوقات لفظی رد و بدل مصنف کے اصل اسلوب کو سمجھنے سے بھی باز رکھتا ہے۔ مشتے نمونہ از خروارے چند مثالیں حسب ذیل ہیں:
’’میری پرورش اور ناز برادری میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں فرمایا اور استاد تعلیم و تربیت مقرر فرمائے ہزار ہاں روپئے میری تعلیم میں صرف فرمائے اور جس بات کامجھ کو شوق ہوا ہزار ہا روپیہ میں نے بے دریغ صرف کیا‘‘
’’میری پرورش اور ناز برداری میں کوئی دقیقہ درد گزاشت نہیں فرمایا اور استاد تعلیم و تربیت پر مقرر فرمائے۔ ہزار روپئے میں نے بے دریغ صرف کیا۔‘‘
’’درخواست مقرونِ اجابت ہوئی‘‘
’’درخواست مقرونِ اجازت ہوئی‘‘
’’ شہر سے تلوار چلنے کے آثار کون سے ہیں‘‘۔ ’’حالانکہ سوائے ماہر نواب سلیمان صاحب اسدؔ اور بسمل صاحب اور مضطرؔ صاحب سب میرے دوست احباب تھے۔‘‘
’’ شہر میں تلوار چلنے کے کون سے آثار ہیں‘‘ حالانکہ سوائے ایک نواب سلیمان صاحب،اسد اور بسمل صاحب اور مصطرؔ صاحب سب میرے دوست احباب تھے۔
’’جوق در جوق و خیل خیل اصحاب ملاقات آتے تھے۔‘‘
’’جوق جوق و خیل خیل اصحاب ملاقات کو آتے تھے۔‘‘
’’درجہ اول پر مرزا زین الدین خاں صاحب عارفؔ‘‘
’’درجہ اول پر مرزا زین العابدین خاں صاحب عارف۔‘‘
بعض سرخیاں اس طرح بدل گئی ہیں:-
طبع اوّل
میری سرگزشت
حالات ولادت حضرت ظہیرؔ ممدوح کے قلم سے
تذکرہ صحبت شعرائے ہم عصر
ذِکر معاشرت اوقات شبانہ روزی
تذکرہ اوقات ِ شبانہ روزی
وجہ معاش
طبع دوم
میرے ابا
میری ولادت
اساتذہ اور معاصرین
والدہ کی وفات
معمول و مشاغل
ملازمت
وغیرہ وغیرہ:
سرخیوں کے معاملے میں آغا محمد طاہر بھی آزاد رہے ہوں گے۔ انہوں نے بھی کہیں کہیں اصل مسودہ کے عنوان کو تبدیل کرنا مناسب سمجھا ہوگا۔ معلوم نہیں نظیر لدھیانوی کے پیش نظر اصل قلمی مسودہ بھی تھا یا صرف پہلا مطبوعہ نسخہ مقدمہ سے تو یہی پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے آغا محمد طاہر کے زیر اہتمام شائع کردہ پہلے ایڈیشن کو ہی پیش نظر رکھا ہے۔ نظیر لدھیانوی نے بعض ذیلی عنوانات اپنی طرف سے بھی قائم کر دیئے ہیں۔ مثلاً تعلیم ، شاعری کا آغاز شادی تباہی کی پیش گوئی وغیرہ۔ نیز ابواب کی تقسیم میں بھی اختراع سے کام لیا ہے کہیں کہیں ظہیرؔ کے درج کردہ عنوانات کو ختم کر کے عبارت کے تسلسل کوقائم رکھا ہے۔ مثلاً طبع اول کے ذیلی عنوانات تفصیل عطیاب مہاراجہ ایجیت سنگھ بہادر (۱۰) وائی پٹیالہ اور ’’ حالِ ملازمت بادشاہی‘‘ کو قلم زد کر دیا ہے۔
غرض کہ اس قسم کی معمولی تحریفات و ترمیمات دونوں مطبوعہ نسخوں کے درمیان دیکھنے کوملتی ہیں۔
ظہیرؔ دہلوی نے اپنی سرگزشت حیات اس وقت مکمل کی جب ان کی زندگی کا آفتاب غروب ہونے کو تھا۔ ۱۹۱۰ء میں حیدرآباد میں جیسے ہی انہوں نے اپنی آپ بیتی ختم کی کہ ایک مختصر وقفہ کے بعد ہی مارچ ۱۹۱۱ء میں ان کی داستان ِ حیات بھی ختم ہوگئی۔
’’داستان غدر‘‘ کے آخری صفحات میں اپنی ذہنی کیفیت کو بیان کرتے ہوئے ظہیرؔ لکھتے ہیں :
’’اب سن میرا ستر سے تجاوز کر گیا۔ دل و دماغ میں طاقت نہ رہی قویٰ مضمحل ہوگئے ۔ ہوش و حواس مختل، سہوو نسیان کی یہ کثرت ہے کہ بات کہتے ہی بھول جاتاہوں۔اولاد کے صدموں سے دل پاش پاش ہوگیا افکار اہل و عیال نے آدمیت سے کھو دیا۔ کوچ ہر وقت گردن پر سوار ہے ۔(۱۱)
لیکن اس کے باوجود ڈاکٹر سید عبد اﷲ کا یہ خیال درست ہے کہ :
’’آپ بیتی لکھنے کے لئے جس قلم اور دل و دماغ کی ضرورت ہوتی ہے وہ قدرت کی طرف سے ظہیرؔ کو حاصل تھا۔‘‘(۱۲)
یہ بات بعید از قیاس نہیں کہ ظہیرؔ اپنی آپ بیتی پہلے سے ہی مرتب کرتے رہے ہوں اور اہم واقعات کو ضبط تحریر میں لاتے رہے ہوں۔ اس سلسلہ میں ان کے معاصرین کا تقاضا بھی شامل رہا ہوگا۔ چنانچہ انہوں نے آخری ایام میں اپنے مسودے کو مکمل آپ بیتی کی شکل بخشی ہوگی ایک جگہ وہ لکھتے ہیں کہ :-
’’ جب احباب صادق الوداد کا تقاضا حد اصرار سے تجاوز ر گیا اور فقیر کو بجز اقبال گنجائش عذر و معذرت نہ رہی اور خطوط کا ایک دفتر فراہم ہوگیا۔ناچار بپاسِ خاطر چند محبان اخلاص کیش قدرے اجزائے پر ملال بسان نامہ اعمال سیاہ کرنے کا اتفاق ہوا اور تمام سرگزشت بطور سوانح عمری روز ولادت سے تا زمانہ شیوخیت راست راست بے کم و کاست ، بلا تضع و بلا مبالغہ و بلا تصرف و بلا تحریف و حوادث سر پر گزرے اور جو واقعات مدۃ العمر میں پیش آئے ہیں قلم برداشتہ بقیدتحریر لائے جاتے ہیں۔(۱۳)
’’احباب صادق الوداد‘‘ کے تقاضے کی دو وجہیں رہی ہوں گی ایک تو بقول صلاح الدین احمد (ظہیرؔ نے ) ہنگامہ ۵۷ء سے ربع صدی پہلے اور نصف صدی بعد کا زمانہ پایا ہے اور اس عہد کی تبدیلیوں اور کیفیتوں کوچشم عبرت سے دیکھا اور اس کے گرم و سردکو زبانِ تجربہ سے چکھا ہے۔ دوسری وجہ یہ کہ انہیں علم تھا کہ ظہیرؔ کے پاس وہ یادداشتیں موجود ہیں جو گذشتہ ماضی کا سرمایہ اپنے دامن میں چھپائے ہوئے ہیں اور آپ بیتی لکھنے کے لئے جس قلم اور دل و دماغ کی ضرورت ہوتی ہے وہ قدرت کی طرف سے ظہیرؔ کو حاصل تھا۔‘‘ لہٰذا ان سے اصرار کیاجائے کہ وہ اپنی یادداشتوں کو سپرد قلم کریں تاکہ ان کی تحریر کے جھروکوں سے عہدِ گزشتہ کا نظارہ کیاجاسکے ۔
تاریخی واقعات:-
’’داستان غدر‘‘محض غدر کی داستان نہیں ہے بلکہ یہ ظہیرؔ کی خود نوشت سوانح حیات ہے لیکن اس میں کچھ ایسے واقعات بھی جگہ پاگئے ہیں جو تاریخ ہند کا ایک باب بن سکتے ہیں۔ تاہم یہ خیال ضروری ہے کہ ظہیرؔ تاریخ نویسی کے فرائض انجام نہیں دے رہے تھے۔البتہ ان کی زندگی ، تاریخی واقعات اور حادثات سے جس طرح دو چار رہی اس کا مفصل بیان مقصود ہے چنانچہ قلعہ معلی کے بعض حالات اس توضیح کے ساتھ قلمبند ہوئے ہیں کہ تاریخی حقائق و شواہد کا لازمی جز بن گئے ہیں اور انہیں تاریخ نویس بے جھجھک قبول کر سکتا ہے۔
اسی کے ساتھ ساتھ تاریخی واقعات کی پیش کش میں بعض اوقات ایسی کمزوریاں بھی نظر آتی ہیں جو ظہیرؔ کے شایانِ شان نہیں کہی جاسکتیں۔ مثلاً بہادر شاہ ظفر کے مقدمہ کی تفصیل اور قلعے کی اندرونی سازشوں کا کوئی ذکر نہیں ہے لیکن ظہیرؔ کو اس کے لئے مورد الزام قرار نہیں دیاجاسکتا ، اس کی وجہ یہ ہے کہ بچشم خود انہوں نے جن واقعات اور حالات کو ملاحظہ کیا ان کو راست راست اور بے کم و کاست بیان کیا اور سنی سنائی باتوں سے احتراز کیا۔ وہ اپنی آپ بیتی کو ’’ بلا تصرف و بلا تحریف‘‘ پیش کرنا چاہتے تھے۔ اس مقصد میں بڑی حد تک وہ کامیاب بھی ہیں۔
۱۸۵۷ء کے واقعات اور اسباب کی تفصیل میں جائے بغیر ایک نظر اس پر ضرور کی جانی چاہئے کہ ظہیرؔ کے بیانات میں کتنی سچائی ہے۔ مولانا امداد صابری نے ظہیرؔ پر بڑی سخت گرفت کرتے ہوئے شکوہ کیا ہے کہ :
’’اس فتنہ پرور زمانے میں ظہیرؔ دہلوی مجاہدین کی کیسے تعریف کر سکتے تھے مجبور تھے ان کی تذلیل کرنے اور ان کی پوزیشن کو خراب کرنے اور ان پر رکیک الزمات لگانے کے لئے اور دہلی کی جنگ آزادی کی اہمیت کو گھٹا کر ان کو لچوں، بدمعاشوں کی جنگ ثابت کرنے کے لئے چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا۔‘‘ (۱۴)
ثبوت میں انہوں نے ’’داستان غدر‘‘کا مندرجہ ذیل اقتباس پیش کیا ہے:
’’کیفیت یہ تھی کہ جس وقت باغیہ دھاوا ر جاتی تھی یہ سب بدمعاش ان کے ہمراہ ہوتے تھے……مگر شہر کی خلقت میں سے کوئی مسلمان یا ہندو از اعلیٰ تا ادنیٓ کبھی ہمراہ فوج باغیہ دھاوے پر نہیں گیا۔ سوائے ان اجلاف بدمعاشوں کے جو روز اول پوربیوں کو ہمراہ لے کر شہر کو لٹواتے پھرتے تھے۔ ‘‘
بیشتر ان میں کاغذی محلہ کشمیری دروازے کے اطراف و جوانب کے کنجڑے ، قصائی، کاغذی، چوڑے چمار، بانڈی باز پہلوان مثل گامی بدمعاش وغیرہ تھے۔ کوئی شریف نہیں تھا ۔‘‘ (۱۵)
اس کے بعد انہوں نے جنرل بخت خاں (۱۶) کا قصہ نقل کیا ہے اور جنرل بخت کے مقام و مرتبہ سے ظہیر/ کی عدم واقفیت پر اظہار تعجب کیا ہے اور فرمایا ہے کہ :
’’جنرل بخت ایسے نادان واجہل نہیں تھے کہ ایسے الفاظ بادشاہ کی شان میں کہتے ہیں۔‘‘
ظہیر نے جو تفصیلات بہم پہنچائی ہیں اور جنرل بخت خاں کی جو تصویر پیش کی ہے اس میں کہیں بھی نادان واجہل جیسے لفظ نہیں لیکن ایک جنرل بادشاہ وقت سے اس طرح بے محا با گفتگو کرے تو وہ آداب شاہی کے خلاف ضرور ہے (۱۷) خود مولانا صابری کو اعتراف ہے کہ ’’اس کتاب(داستان غدر) میں یہ بات قابل تعریف ہے کہ اس میں بہادر شاہ ظفر کا نام اور ان کا ذکر بڑے احترام کے ساتھ کیا ہے اور مؤرخوںکی طرح ان کو نیچا دکھانے کی یا گرانے کی کوشش نہیں کی ہے ۔(۱۸)
مولانا امداد صابری نے اپنی ایک دوسری تصنیف اردو کے اخبار نویس جلد اول میں ظہیرؔ دہلوی کی صحافت کے ذیل میں حسب دستور ’’داستان غدر‘‘ سے ماخوذواقعات و حالات بیان کرتے ہوئے دبی زبان سے ایک بار بھر اعتراف کیا ہے کہ ظہیرؔ سے جنگ آزادی ( غدر ۱۸۵۷ء میں جو بن پڑا کیا (۱۹) پھر ظہیرؔ کی پریشانی دبے کسی کا نقشہ کھینچنے کے لئے ایک واقعہ داستان غدر سے نقل کیا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ ’’پوربیوں نے ظہیرؔ کو بریلی کے سفر کے دوران انگریزوں سے مخبری کے شک میں گرفتار کر لیا اور توپ سے باندھ کر اڑائے جانے کاحکم بھی صادر کرادیا مگر قسمت سے اچانک داروغہ فتح علی آگئے اور انہوں نے یہ کہہ کر ظہیرؔ کی جان بچائی کہ یہ تو شاہی ملازم ہیں انگریزوں سے جان بچائے پھر رہے ہیں ۔
عجیب بات ہے کہ ایک طرف تو مولانا ظہیرؔپر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ جنگ آزادی ۱۸۵۷ء کو لچوں اور بدمعاشوں کی جنگ بتاتے ہیں اور دوسری طرف ان حقائق سے پردہ پوشی بھی نہیں کر سکتے جن سے ظہیرؔ کی بے گناہی اور بے چارگی کی تصویر ابھرتی ہے۔
ظہیرؔ وقائع نگار یامورخ نہیں تھے لیکن ۱۸۵۷ء کے تناظر میں ان کی زندگی کے المناک واقعات و حادثات کا مطالعہ کیاجائے تو صاف پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے اپنی آپ بیتی میں جگ بیتی کو سمیٹ لیا ہے اور ان کے اس قسم کے بیانات لگاوٹ اور تصنع کے شائبہ سے بھی پاک ہیں شاید اسی لئے کہ :
’’آپ بیتی میں بے باک سچائی اور خلوص کی سب سے زیادہ ضرورت ہے اس کی غرض شخصیت کو پیش کرنا ہے اور لازمی ہے کہ تصنیف شخصیت کو واضح کر دے اور فن کا تقاضہ بھی یہ ہے کہ جو کچھ کہا جائے صفائی اور سچائی کے ساتھ پیش کیا جائے ۔‘‘(۲۰)
چنانچہ ظہیر ؔکی ذہنی کیفیت نفسیات اورحالات کے ماتحت ان کی جو کچھ طرف فکر رہی ہے اسے بے تکلف انداز میں ’’ داستان غدر‘‘ کے صفحات میں دیکھا جاسکتا ہے ۔ ہم جانتے ہیں کہ جب کبھی سیاسی حالات تبدیل ہونے لگتے ہیں یا ملک یا علاقہ میں کوئی ہنگامی صورت وقوع پذیر ہوتی ہے تو عام طور سے سماج کا ایک نہ ایک طبقہ غنڈے اور بدمعاش صورت حال کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں اور لوٹ مار اور غارت گری کے ذریعہ سے وہ اصل صورت حال کا رخ موڑ دیتے ہیں جس کا نتیجہ خواس اور عوام سبھی کو بھگتنا پڑتا ہے ۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ جو لوگ بادشاہت کے طرفدار تھے یا جنہوں نے بادشاہ ظفر کی بادشاہت کا اعلان کیا اور اپنا سردار تسلیم کیا انہیں کے ہاتھوں بادشاہ کے وفادار اور طرفدار بھی بربادی پ پریشانی اور ذلت و خواری سے دو چار ہوئے ۔ دلی میں لوٹ مار اور غارت گری کا یہ حال تھا۔
’’شہر کی یہ کیفیت تھی کہ بدمعاش شہر کو پوربیوں کو ہمراہ لئے ہوئے بھلے مانسوں کے گھر لٹاتے رہتے تھے۔ ااور جس کو مالدار دیکھا ان کے گھر پوربیوں کو لے جاکر کھڑا کر دیا کہ یہاں ’’میم چھپی ہوئی ہے ۔‘‘(۲۱)
بقول ڈاکٹر سید عبد اﷲ:
’’ یہ میم چھپی ہوئی ، کاایک فقرہ خاص ذہن کی تشریح کرنے کے لئے کافی ہے۔‘‘(۲۲)
یا ڈاکٹر صبیحہ انور کے الفاظ میں
’’یہاں پر یہ جملہ کہ ’’میم چھپی ہوئی ہے ‘‘ ظلم اور سینہ زوری کی علامت ہے ۔ جو اس سرگزشت کو خون غم کے چھینٹوں سے رنگین بناتی ہے ۔‘‘(۲۳)
’’داستان غدر‘‘میں ظہیرؔ دہلوی کے اکثر بیانات بڑی حد تک معروضیت پر مبنی ہیں۔ بادشاہ سے بے پناہ عقیدت ، تعلقِ خاطر اور نسبتِ معاش رکھنے کے باوجود پوری حقیقت پسندی سے کام لے کر لکھتے ہیں :
’’ہر چندتو ڈیڑھ سو برس پیشتر خاندان عالی شان تیموریہ دودمانِ اولوالعزم گورمانیہ کو ہذا فراق بینی و بینک کہہ کر رخصت ہوچکی تھی۔ برائے نام بادشاہت رہ گئی تھی۔ کیونکہ ایک چھوٹی سی ریاست ہندوستانی کے برابر بھی بادشاہ دہلی کو وسعت مقدرت و استطاعت نہ رہی تھی۔ بقول سوداؔ:
کہ ایک شخص ہے بائیس صوبہ کا خاوندرہی نہ اس کے تصرف میں فوجداریء کول (۲۴)
غرض کے ’’داستان غدر‘‘ میں ۱۸۵۷ء کے مرقعوں میں ظہیرؔ نے اپنے خود سے ایسی رنگ آمیزی کی ہے کہ اس کے بیان کی دلکشی میں اضافہ ہوا ہے اور واقعہ ہو بہو عکاسی بھی ممکن ہو سکی ہے۔ ایک شخص جب اپنی آپ بیتی لکھنے بیٹھتا ہے یا دوں کی غلام گردش میں وہ اپنی ہی ذات کو محور بناتا ہے لیکن اپنی ارد گرد بکھرے ہوئے رنگوں کے چھینٹوں سے وہ خود کو نہیں بچاپاتا یعنی خود نوشت سوانح نگار بالواسطہ یا بلاواسطہ ان حقائق کا انکشاف کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ جو سماجی و معاشی رابطہ کے وسیلے سے ان کی زندگی کو اک نیا موڑ دیتے رہے ہیں۔ یہاں تک کہ جب وہ اپنے عہد کی تصویر کشی کرتا ہے تو وہ گویا اپنے عہد کی تاریخ کو بھی رقم کرتا ہے۔
معاشرت کی عکاسی:
ظہیرؔ کی داستان غدر نہ صرف تاریخی شواہد کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے بلکہ اس میں وہ حروف بھی تحریر پاگئے جن میں اس زمانے کی معاشرت کے نقوش اور کردار سانس لیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
یہ ظہیرؔ دہلوی کی عالی دماغی اور ذہنی جودت کا کمال ہے کہ’’داستان غدر‘‘محض حکمراں طبقہ کی فتح و شکست سے ہی عبارت نہیں بلکہ اس میں عوامی زندگی بھی کروٹیں لیتی ہوئی نظر آتی ہے۔ انہوں نے جابجا اپنے عہد کی معاشرت کی بوقلمونی کے جلوے دکھائے ہیں ’’سیر گل فروشاں‘‘کا احوال دیکھئے:
’’جابجا ڈیرے، خیمے استادہ ہوجاتے ہیں شہر کی خلقت شبانہ روز ناچ رنگ دیکھتی ہے۔ اندھیری باغ میں جھولے پڑ جاتے ہیں۔ شاہدانِ بازار اس میں جھولتی ہیں۔ ملہار کی تانیں اس میں اڑاتی ہیں، جنگل اور پہاڑ سب سبز ہوتا ہے ابر تیرہ وتار چھایاہوتا ہے ہلکی ہلکی بوندیاں پڑتی ہیں عجب کیفیت ہوتی ہے کہ بیان نہیں ہوسکتی۔
دن کے دو بجے جھرنے سے پنکھے اٹھتے ہیں آگے آگے تو اور اقوام اہل حرفہ کے پنکھے ہوتے ہیں اور سب کے پیچھے پھول والوں کا پنکھا ہوتا ہے۔ اس وقت اژدھام دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ اگر سیر میں کسی آدمی کا پاؤں زمین سے اٹھ گیا تو آدمیوں کی چپقلش میں سو سو قدم تک ادھر چلا جاتا ہے ہر پنکھے کے آگے روشن چوکی بجتی جاتی ہے ۔‘‘…… نفیری والے ستم کرتے ہیں ایسے سریلی نفیروں میں ملار گاتے ہیں کہ آدمی بے اختیار دل سہومحو ہوجاتے ہیں۔ کچھ ہوش تن بدن کا نہیں رہتا اور عالم بے اختیاری میں جوہاتھ آیا پھینک دیا۔‘‘
……’’بساطیوں کی دوکان بکثرت تھیں لاکھوں روپیوں کی خرید و فروخت ہوجاتی تھیں۔ دو تین شب کے شہر کے بازار میں مرد کا نام تک نہ ہوتا تھا۔ شہر کی مستورات پردہ نشین شب کو بازار میں نکلتی تھیں اور مسجد جامع میں جا کر سیر کرتی تھیں۔
……… ’’حضرت بادشاہ موسم بارش چار ماہ کامل یہیں رہتے تھے۔‘‘ (۲۵)
ان کی نظر سماجی روایتوں، مذہبی رسموں، محفلوں، مشاعروں، تہواروں، میلوں، ٹھیلوں اور ثقافتی مرکزوں تک پہنچتی ہے۔ اس اعتبار سے ’‘داستان غدر‘‘ ایک ایسی خود نوشت سوانح حیات ہے جس میں تاریخی ، معاشرتی ، سماجی اورادبی احوال بیان کئے گئے ہیں یہ محض واقعات کی کھتونی نہیں بلکہ اس میں ایسے جیتے جاگتے کردار جگہ پاگئے ہیں جو اپنے وطن طریق ،رہن سہن ، عادت و اطوار کے ساتھ اپنی پہچان بناتے ہیں۔
خود نوشت سوانح نگار ایک طرف اپنی ذات کو مرکز بناتا ہے تو دوسری طرف اس کا عہد اور سماج ہوتا ہے۔ ایک طرف مصنف کا ذاتی نقطہ نظر ہوتا ہے تو دوسری طرف معاشرتی طور طریق اور سماجی اصول و ضوابط ہوتے ہیں۔ لیکن ایک باشعور خود نوشت سوانح نگار اپنی آپ بیتی میں دلکشی پیدا کرنے کے لئے محض مبالغہ کے رنگ نہیں سجاتا بلکہ وہ اپنی شخصیت کو صداقت کا آئینہ سونپ دیتا ہے۔ تاکہ ذات و سماج کے ٹکراؤ میں وہ اپنے نصب العین کو بھلا نہ دے اپنی لغزشوں اور کمزوریوں کو ریاکاری کی زد سے بچاتا ہے ۔ ممکن ہے کہ اس طرح آپ بیتی بیان کرنے والا اپنی شخصیت پر ایک دبیز پردہ ڈال دیتا ہو کیوں کہ جس قدر وہ آپ بیتی میںاپنے آپ کو نمایاں کرتا ہے ۔ اسی قدر وہ خود کو چھپاتا بھی ہے۔ ڈاکٹر سید عبد اﷲ کے بقول:
’’آپ بیتی اصولاًخود کو چھپانے کی ایک کوشش ہے خود کو ظاہر کرنا بھی ہو تو خلوت میں بیٹھ کرتا کہ دوسروں تک اس کی جھلک کم پہنچے آپ بیتی سات پردوں اور ہزار علاقوں کے اندر پرورش پاتی ہے وہ اکثر خود کو چھپانے کے تقاضوں سے پیدا ہوتی ہے۔ اہل عالم کی نگاہ کرم خود نوشت نگار کو تعلیم ضبط دیتی ہے اور یہ تعلیم اس کی ذات کو پردوں میں یوں چھپا دیتی ہے جیسے شعلہ خس میں اور خون رگ میں نہاں ہوتا ہے۔‘‘(۲۶)
آپ بیتی میں بالخصوص اور دیگر اصنافِ ادب میں بالعموم یہ رمز پوشیدہ رہتا ہے۔ فنون لطیفہ اور خصوصاً شاعری اپنے آپ کو چھپانے کی ہی ایک کوشش ہے۔
یہ صحیح ہے کہ آپ بیتی لکھنے والا خلوت میں جلوت کے نقشے ترتیب دیتا ہے یعنی آپ بیتی نقطے سے دائرے اور دائرے سے نقطے میں سمیٹنے کا عمل ہے چنانچہ قاری کو شخصیت کی تہہ تک پہنچنے کے لئے دائرے سے نقطے تک پہنچنا لازمی ہے۔ اس طرح یہ بات لازمی ہوگئی ہے کہ آپ بیتی میں جگ بیتی سموئی ہوئی ہے۔ اس لئے جب آپ بیتی لکھنے والا یادوں کے اوراق پلٹتا ہے تو اس کے خلوت جلوت کے مزے لیتی ہے۔ قاری اس جلوت کے سہارے اس کی خلوت تک رسائی حاصل کر تا ہے اور آپ بیتی لکھنے والے کی شخصیت کو بے نقاب کر دیتا ہے۔ کیونکہ مجلسی روابط اور سماجی ضابطے نہ صرف کسی عہد کی معاشرت کی نمائندگی کرتے ہیں بلکہ فرد کی شخصیت کو سمجھنے میں ممدو معاون ثابت ہوتے ہیں۔
ظہیر ؔکا تعلق چونکہ اس خاندان سے تھا جس خاندان کے پیشتر افراد مغلیہ دربار سے وابستہ رہے اور خود ظہیرؔ کا بھی بچپن سے ہی قلعہ معلی سے تعلق پیدا ہوگیا تھا۔ اس لئے ان کی آپ بیتی میں دلی کے مرقعے ہی نہیں ’’قلعہ معلی کی معاشرت کے دلچسپ نقشے نظر سے گزرتے ہیں ‘‘ اور ان کے خاندانی ماحول کی خوب صورت تصویریں بھی ابھرتی ہیں:
’’جب میرا سن ، سن چارسالگی کو پہنچاتو میری والدہ نے مجھے روزہ رکھوایا کیونکہ انہوں نے خدا کی جناب میں منت مانی تھی نہایت دھوم سے روزہ کشائی کی تقریب عمل میں آئی ۔‘…… بڑی دھوم سے شادی بسم اﷲ کی ، تمام شہر کے عمائد اور امراء شاہزادگان وغیرہ فراہم ہوئے تھے اور دور دور تک محفل رقص و سرور گرم رہی اور تمام عمائد کے یہاں تورے تقسیم کئے گئے چند روز تک بخت طعام اور تورہ بندی جاری رہی۔ میں نے اپنے والد بزرگوار کو زبانی سنا ہے کہ ’’تیری بسم اﷲ ‘‘کے روز عزیز و اقارب وغیرہ نے سوا اشرفی تیرے ہاتھوں میں دی تھیں۔‘‘(۲۷)
’’ اب کیفیت یہ ہوئی کہ جس کی زبان سے شعر اچھا سنا وہ دل میں نقش ہوگیا۔ گھر کے کتب خانہ کو دیکھا تو اہل ِ فارسی کے دواوین بکثرت نظر آئے۔ شعرائے فارسی کے انتخاب بطور تذکرہ گھر میں موجود تھے ان کو دیکھنا شروع کیا۔ اردو کی غزل جس استاد کی سنی یاد کر لی۔ دیوان ناسخؔ و آتشؔ اور واسوخت اورمثنویاں وغیرہ لکھنؤ سے چھپ کر تازہ تازہ دلی میں آگئی تھیں۔ شبانہ روز ان کو دیکھنے کا مشغلہ رہنے لگا ۔‘‘(۲۸)
’’اس قدر احباب ایک مکان پر وقت شام بلا ناغہ ہم جلیس ہوتے تھے اور باہم داد و سخت دیتے تھے۔ (۲۹)
’’زمانہ طفولیت میں پتنگ اور کبوتروں میں صد ہا روپئے برباد کئے …… جب میں سن بلوغ کے قریب پہنچا تو مجھے گھوڑے کی سواری کا شوق ہوا دو دو گھوڑے خریدے اور ان کو کھلایا اور تیار کیا ۔ چڑھا اترا مگر یہ سب صرف اس جناب کے ذمہ رہا۔ مجھے ایک استاد چابک سوار کا شاگرد کرایا اور سواری سکھائی گھوڑے کا بنانا اور چڑھنا، تیار کرنااور عیب و صواب سے آگاہ ہونا یہ سب باتیں میرے استاد نے بتائیں۔‘‘
’’میری نشست کا دیوان خانہ علاحدہ تھا۔ میرا چھوٹا بھائی امراؤ مرزا انورؔ اور برادر عم زاد مرزا خورشید ہم تینوں بھائی اس دیوان خانہ میں نشست رکھتے تھے نو بجے صبح کے بعد دوست احباب فراہم ہوتے تھے اور اکثر طالب علم بھی ہمارے پاس سبق کو آتے تھے۔ دو گھنٹے کامل درس و تدریس کا مشغل رہتا۔اس اثناء میں شعر اشعار کا بھی تذکرہ ہوجاتا تھا۔ وہ اوین فارسی تذکرہ جات کی اشعار خوانی رہتی تھی بعد گیارہ بجے صحبت برخاست ہوجاتی تھی۔ میں گھر جا کر کھانا کھاتا اور بعد تناول طعام گھنٹہ دو گھنٹہ استراحت کر کے بیدارہوتا تھا۔ تو پھر احباب محلہ آبیٹھے تھے۔ گنجفہ، چوسر وغیرہ کاشغل رہتا تھا بعد مغرب مکان پر آنا تھا اور پھر احباب کا مجمع رہتا تھا۔ ہر طرح کی دل لگی رہتی تھی۔ ایک دوستار نواز آجاتے ۔ ستار طبلہ وغیرہ سے دل کو فرحت ہوتی تھی یا کسی اور شغل میں دل کو بہلاتے تھے۔‘‘(۳۰)
جزئیات نگاری اور تفصیلات کا عالم یہ ہے کہ معمولی سی معمولی بات کو بھی شرح و بسط سے بیان کرتے چلے جاتے ہیں۔ کہیں کہیں تو وقت اور منٹ تک سے آگاہ کر دیتے ہیں۔
’’ہمارے ہاں کمرے کے گھنٹے میں سات بج کر پچیس منٹ پر سوئی آکر قائم ہوئی ہے۔‘‘(۳۱)
لیکن عجیب بات ہے کہ کہیں بھی انہوں نے سنہ یا تاریخ کا اندراج ضروری نہیں سمجھا ۔ حتیٰ کہ اپنی تاریخ پیدائش بھی درج نہیں کی ۔ کس مقام پر کس زمانے میں قیام کیا ۔ کس سنہ اور تاریخ کی یہ واردات ہے ۔ کوئی مذکور نہیں۔ بہر حال مندرجہ بالااقتباسات سے ظہیرؔ دہلوی کی ذات اور شخصیت کی تعمیر کے روشن پہلو نظر آتے ہیں۔ ’’روزہ کشائی کی تقریب‘‘ شادی بسم اﷲ‘‘ فارسی شعرا کے دو اوین کا مطالعہ ‘‘ دلی میں آتشؔ و ناسخؔ کے کلام کی پذیرائی ، ذاتی ذوق وشوق گھوڑی سواری اور اس کے عیب و صواب سے آگاہی دوستوں کی مجلسیں، محفلیں، رونقیں، آداب، اصول طور طریق، غرض یہ کہ ایک معاشرت اور معیشت کی ترجمانی ظہیرؔ کی آپ بیتی کا طرۂ امتیاز ہے۔ ذاتی زندگی اور خاندانی مراسم کے پہلو بہ پہلو اگر بہ نظر غائر دیکھا جائے تودلی کی تہذیب کی مرقع کشی ’’ ’’داستان غدر‘‘ کی شان نزول ہے۔ اس کے ذریعہ سے اس زوال آمادہ تمدن کی تصویر کشی کی گئی ہے جو اس دور کے شرفاء کے خاندانوں میں گھن کی طرح سرایت کر گیا تھا۔ دنیا و مافیہا سے بے خبر، آنے والے کل کی آہٹوں سے بے نیاز اپنے حال میں اور حال کی فرغات کو مستقبل کی فارغ البالی کی خوش خیالی میں مست تھا۔ لیکن ایک بات ضرور تھی۔ رنگین صحبتوں اور ’’خوش باش بذلہ سنجوں‘‘ کے درمیان فن اور فنکاری کی قدر و منزلت یقینی تھی۔ ظہیرؔ لکھتے ہیں :
’’ہر فن اور ہر کمال کا آدمی ہمارے پاس آجاتا تھا جو کسی فن کا اہل کمال دلی میں وارد ہوتا تھا ایک بار میرے مکان پر بھی ضرور اس کا گزر ہوتا تھا۔ ‘‘
اور جب دلی کی تباہی کے ساتھ یہ خاندان اجڑے تو ظہیرؔ بھی گردش زمانہ کا شکار ہوئے وہ گزشتہ دنوں کی یادوں کو تیغ تیز کے زخموں کی طرح اپنے دل میں چھپائے عمر بھر لہو رویا کئے اور یہ سوچ کر صبر کی منزلوں سے گزرتے رہے کہ :
’’ہزاروں بادشاہوں بادشاہانِ عالی مقدار و سلاطین ذوی الاقتدار چشم زون میں پامال نگہت و ادبار ہوگئے ہیں۔ نام و نشان تک باقی نہ رہا۔‘‘(۳۲)
عبرت خیزی اور رنج و ملال کی یہ داستان ہر ہر صفحہ پر ایک بے قرار روح سے ملاقات کراتی ہے اورصبر و قناعت اور توکل کے ان تمام اسباب کو فراہم کراتی ہے۔ جن سے دلی کی خانقاہیں آباد تھیں۔ ہر ایک دروازہ پر مایوسی اور افسردگی کے کتبے آویزاں تھے۔ خوف و دہشت کے پہرے تھے لیکن اس کے باوجود زندگی اور زندگی سے محبت کے ثبوت میں دلی والے جیالوں کی طرح زخم کھاتے تھے۔ برباد ہوتے تھے۔ لٹتے تھے مگر زندگی کی تلاش سے منہ نہ موڑتے تھے۔
شخصیات کا ذکر:
’’داستان غدر‘‘ کی ایک نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ اس میں بعض شخصیتوں کا ذکر بڑے دلچسپ انداز میں کیاگیاہے ان کی عادت و خصلت اور سیرت و کردار کے خاکوں میں ظہیرؔ اپنے منفرد اسلوب کے ذریعے ایسے شوخ رنگ بھرتے ہیں جن سے خود ان کی نفسیات کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ بہت ممکن تھا کہ بعض شخصیتوں کے حالات اگر ظہیرؔ سے ہمیں معلوم نہ ہوتے تو شاید آج تک پردہ خفا میں ہی رہتے واقعہ یہ ہے کہ ظہیرؔ نے حق نمک ادا کیا ہے۔ اپنے محسنوں اور کرم فرماؤں کو ہر ہر قدم پر یاد رکھا ہے۔ اور ان کے ذکر میں اپنے قلم کے احترام کے سجدے واجب کئے ہیں۔
ایک اچھا فنکار جب اپنی سوانح عمری کو مرتب کرتا ہے تو وہ جمہوری رجحان اور اپنے عہد کے ماحول سے قطعی بے نیاز نہیں رہ سکتا۔ ’’صداقت اور نیم صداقت کی شرط ‘‘خود نوشت سوانح کے لئے لازمی ہے۔ مگر خود نوشت سوانح نگار کو اس آئینہ میں دیکھنا ہو تو تحلیل نفسی کی بعض شرائط بھی اس سلسلے میں ناگزیر حیثیت رکھتی ہے۔ اس کی کہی ہوئی باتوں میں ان کہی باتیں ضرور تلاش کرنی چاہئیں۔خود نوشت سوانح نگار مختلف واقعات ، حالات اور متعلقہ شخصیات کا جب ذکر کرتا ہے تو خود اس کے ذہنی رویے اور دبی ہوئی خواہش کا پتہ بھی چل جاتا ہے۔ یعنی اس طرح اس کی تمام تر ذہنی کیفیتوں کا آسانی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ مثلاً بہادر شاہ ظفر کے تذکرہ میں ظہیرؔ نے بادشاہ کی ان خصوصیات اور کمالات کو قدرے دلچسپی سے بیان کیا ہے جن سے وہ خود بھی مبرا نہیں تھے۔ خوش نویسی کا فن ان کی میراث تھا۔ اور اس فن میں وہ خود بہادر شاہ ظفر کے شاگرد تھے ، لیکن چونکہ شاہ ظفرؔ کو ظہیرؔ کے دادا سے تلمذ تھا۔ اس لئے ظہیرؔاس اظہار سے باز نہ رہ سکے کہ بادشاہ اور ظہیرؔ کے والد فن خوش نویسی میں برابراور لاثانی تھے۔ (۳۳) جب وہ شہسواری اور گھوڑے کے عیب و صواب و قوم میں بادشاہ ظفر کی ’’نکتہ شناسی‘‘ کی تعریف کرتے ہیں تو ہمیں خود ان کی شہسواری ، گھوڑے کی پہچان اور اس باب میں ان کی دلچسپیوں کی تفصیل کا راز بھی معلوم ہوتا ہے۔
یہ ایک الگ بات ہے کہ ظہیرؔ کو انقلاب روزگار نے جگہ جگہ کی خاک چھانٹنے پر مجبور کیاتھا لیکن چونکہ ان کی تربیت مغلیہ دربار کی رہین منت تھی ۔ اس لئے امرائے ریاست سے ان کی خصوصی تعلقات رہے ریاست حیدرآباد میں نظام تک ان کی رسائی نہ ہوسکی تو اس کا انہیںنہایت صدمہ رہا اور آخر عمر میں حیدرآباد کے قیام پر وہ نہایت افسردہ متاسف رہے۔ مہاراجہ اجیت سنگھ ، مہااجہ جے پور مہاراج رام سنگھ ، نواب زادہ ریاست ٹونک نواب احمد علی خاں، وائی ریاست ٹونک نواب ابراہیم علی خاں خلیلؔ کے بیان میں ظہیرؔ نہایت مخلصانہ و متشکرانہ انداز اختیار کرتے ہیں اور ان حضرات کی شخصیت و کردار کے ان گوشوں پر روشنی ڈالتے ہیں جو عام طور سے نظر انداز ہوتے رہتے ہیں۔
راجہ اجیت سنگھ ( جنہیں ظہیرؔ نے ایجیت سنگھ لکھا ہے) کے بارے میں ظہیرؔ نے بڑی دلچسپ معلومات فراہم کی ہیں اس کے مطابق ان کی ذات میں عیش پرستی، خوش باشی، خوش پوشی و خوش خوئی کے ساتھ ساتھ فیاضی، دریادلی،درویشی، قلندری و آزادگی اور فقیری کا عجیب وغریب امتزاج تھا۔یہ وہی راجہ ہیں جنہوں نے مومن خاں مومنؔ کو ظہیرؔ کے الفاظ میں ایک فیل مادہ معہ زیور فقرہ و جھول زردوزی و حوصہ نقرہ و یک ہزار روپیہ خوراک (۳۴) عطا کی تھی۔ اور مومنؔ نے بطور تشکر مہاراجہ کی مدح میں ایک قصیدہ کہا تھا جس کا مطلع ہے:
صبح ہوئی تو کیا ہوا ہے وہی تیرہ اختری
کثرت دود سے سیاہ شعلۂ شمع خاوری
مومنؔ جیسا غیور شاعر ہمیشہ ارباب دول سے لا تعلق رہا اور عمر بھر کسی رئیس کی مدح سے اپنے قلم کو آلودہ نہیں کیا لیکن ایک وائی ٹونک نواب وزیر الدولہ کہ جوان کے پیر بھائی بھی تھے اور ہم جلیس بھی اور دوسرے (پٹیالہ کے) راجہ اجیت سنگھ اور ان کے ممدوح ٹھہرے۔ ظہیرؔ کی روایت کے مطابق ممدوح موصوف نے داغؔ کو ایک ہاتھی بطور انعام عنایت کیا تھا۔
مہاراجہ جئے پور مہاراج رام سنگھ کے خصائل و عادات کے ذیل میں ظہیرؔ لکھتے ہیں:کہ وہ درویشانہ مزاج رکھتے تھے اور تصوف سے انہیں خاص لگاؤ تھا ایک 0 مرد نابینا باجو میاں سے رغبت رکھتے تھے اور اپنے شب خوابی کے کمرے کے پاس باجو میاں کا کمرہ تیار کرایاتھا۔ باجومیاں بڑے متقی پرہیزگار اور عبادت گزار آدمی تھے۔ ہر صبح نماز فجر اور اوراد و وظائف کے بعد وہی مہاراج کو بیدار کرتے تھے اور ہر صبح مہاراج ان کا منہ دیکھ کر بیدار ہونا مبارک فال سمجھتے تھے۔
نواب احمد علی خاں رونق اپنی کبرسنی کے باوجود ظہیرؔ کا احترام اور ان سے عقیدت مندی کا اظہار کرتے تھے ۔ انہوں نے ظہیرؔ کی ہر طرح قدر و منزلت کی اور ان کی کفالت و سرپرستی بھی کی ۔ ان کی شاگردی پر فخر کیا کرتے تھے۔ عقیدت مندی کا ثبوت اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگا کہ نواب رونق کے مرتے وقت ظہیرؔ کا ہاتھ ان کے ہاتھوں میں تھا۔ نواب ابراہیم علی خاں خلیلؔ کے بارے میں رقم طراز ہیں:
’’نواب صاحب سا رئیس با شرع ، متقی، پرہیزگار ، عابد و زاہد ، با خدا عاشق رسولؐ، دیندار ، شریف پرور، عدل گستر رحیم، جواد، فیاض ، بہادر سخی، دریا دل کریم النفس، خدا ترس، وسیع الاخلاق، دوستدارفی زمانہ دنیا میں نہیں، میرے قلم کو طاقت نہیں کہ ان کے اوصاف حمیدہ تحریر کر سکے ۔(۳۵)
لیکن جب وہ اپنی آپ بیتی کے جھروکوں سے حضرت ظل سبحانی خلیفہ الرحمنی کے جلوؤں سے سرشار ہوتے ہیں توان کا قلم بہادر شاہ کی جناب میں سجدہ ریزہوجاتا ہے۔ الفاظ کے پھول برسنے لگتے ہیں اور یادوں کی خوشبو سے ایک عجیب سی بے خودی کی کیفیت ان پر طاری ہوجاتی ہے۔……… لیکن جس طرح پھول کی پنکھڑیاں مسکراتی ہوئی بھلی لگتی ہیں اسی طرح جب شبنم کے آنسو روتی ہیں تو اہل دل کو بے پناہ متاثر کرتی ہیں۔ ظہیرؔ کا قلم بہادر شاہ کے ذکر میں لفظوں کو مسکراتے ہوئے پھول بھی بچھاتا ہے اور شبنمی آنسوؤں کے موتیوں کو بھی چنتا ہے۔ بادشاہ سراج الدین محمد ظفر کی شاندار اور باوقار زندگی نے بے کسی و بے بسی کے دن بھی دیکھے ۔ وقت کے اس ظلم و ستم کے بیان میں ظہیرؔ کا قلم لہو روتا ہے اور سننے اور پڑھنے والوں کا کلیجہ پھٹتا ہے۔
’’فقیر بھی اس بوستانِ تاراج شدہ کا ایک نخل خزاں رسیدہ ہے ہیہات ہیہات کیاتھا کیا ہوگیا۔ زمانہ غدر کے بعد اس مرقع کا شیرازہ جمعیت درہم برہم ہوکر ورق ورق منتشر ہوگیا۔(۳۶)
۱۸۵۷ء کے تمام تر قصے میں بادشاہ ظفر کو ظہیر ؔنے بالکل ہی بے تعلق ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ حالانکہ تاریخی شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ بادشاہ کو انگریزوں سے نفرت تھی اور انہوں نے انگریزوں کے خلاف ایرانی کمک حاصل کرنے کے لئے مصلحتاً شیعہ مذہب اختیار کرنے کا اعلان بھی کیا تھا لیکن دہلی میں جب بادشاہ کے مذہب کے سلسلے میں اضطراب پیدا ہوا تو ایک کتاب ’’حقیقت اہل سنت و جماعت ‘‘مرتب کی۔ مرزا غالبؔ نے بادشاہ کی حمایت میں ایک فارسی مثنوی ’‘دفع الباطل‘‘ تحریر کی۔
اس کے برخلاف بادشاہ کی پیری مریدی کی اسکیم اور جہاد ناموں کے ذکر سے ’’داستان غدر‘‘ خالی ہے۔ حیرت ہے کہ ظہیرؔاتنے معاملات سے کیونکر درگزر کر گئے؟ البتہ پوربیوں ’’گھس کھدوں‘‘ اور ’’باغیوں کا فتنہ و فساد‘‘ اور بادشاہ کی مظلومی و بے بسی کے اظہار میں انہوں نے اپنی حقیقت پسندی کاثبوت دیا ہے:
’’سنو بھائی مجھے بادشاہ کون کہتا ہے میں تو فقیر ہوں۔ لڑائی جھگڑے سے کچھ کام نہیں ۔ اس کا اسداد پورا انتظام انگریز لوگ خود کر لیتے ہیں میں تو ایکگوشہ نشین آدمی ہوں، مجھے ستانے کیوں آئے … مجھ سے کسی طرح کی توقع استعانت کی نہ رکھو۔‘‘(۳۷)
بادشاہ کی بے چارگی کی تصویر اس سے بہتر ممکن نہیں عظیم الشان مغلیہ سلطنت کے افسوسناک زوال کی تصویر کے لئے بادشاہ کے یہ الفاظ غالباً بہت موزوں و مناسب ہیں۔ عبرت کی اس سے بڑی مثال اور کیا ہوگی۔
لیکن اس تاریخی حقیقت کو ظہیرؔ جھٹلا نہ سکے کہ بیکس و مجبور بادشاہ میں انگریزوں کے خلاف دم اخ ابھی باقی تھا۔اور انہوں نے کارتوسوں کے معاملے میں ریزیڈنٹ کو بلا کر صاف صاف ڈانٹ پلائی اور دین و آئین کے مقدمے کی وکالت کی۔ ریزیڈنٹ سے اس معاملے میں بادشاہ نے خود باز پرس کی اور دین کے سلسلہ میں جو شک پیدا ہوا اس کے انسداد کا حکم دیا۔ چنانچہ ریزیڈنٹ کو بادشاہ کے حکم کی تعمیل کے وعدے کے علاوہ کوئی اور چارہ نہ بن پڑا۔
’’اس سلسلے میں ڈاکٹر محمد حسن کا خیال ہے کہ :-
’’داغؔ کے شہر آشوب میں ظہیرؔ کی داستان غدر اور مولوی ذکا اﷲ کی تاریخ ہندوتان میں نذیر احمد کی تصانیف میں اور غالبؔ کے خطوط میں جن کالوں اور پوربیوں کا ذکر ہے وہ تمام انگریزوں کے ڈر سے نہیں لکھا گیا ہے ۔‘‘(۳۸)
’’غدر‘‘ کے واقعات کے سلسلہ میں ظہیرؔکے بیان کردہ واقعات اور روایات دلی کے زوال آمادہ تمدن کی ترجمانی کا حق تو ادا کرتے ہی ہیں لیکن فکر و عمل کی گرتی ہوئی شاخوں پر برگِ نو کی حیثیت بھی رکھتے ہیں اگرچہ بہت سی باتیں یا تو محض زیب داستان کے لئے ہیں یا ان میں داستانوں کا سا دلچسپ انداز پیدا ہوگیا ہے اور وہ ایسی طلسمی کیفیت طاری کر دیتی ہیں جن میں قاری حقیقت سے دور ہوجاتا ہے لیکن عبرت او رحیرت سے بچ نہیں پاتا خاص طور سے مولا بخش (۳۹)کا قصہ اور اسپ ہمدم کا واقعہ مغلیہ تمدن اور قلعہ معلی کے المیہ کی عبرت انگیز داستان کا روشن استعارہ ہے۔
ظہیرؔ کا شہر آشوب بھی ’’داستان غدر‘‘ کی طرح دلی کی تباہی و بربادی کا مرثیہ ہے۔ ظہیرؔ نے داستان غدر میں جہاں کہیں دلی کی تباہی پر اظہار افسوس کیا ہے وہاں اپنے طویل شہر آشوب کے بند بھی مضمون کے اعتبار سے درج کرتے چلے گئے ہیں اس سے واقعہ نگاری میں بڑا زور پیدا ہوگیا ہے۔ یہ شہر آشوب مسدس کی شکل میں ہے اور بڑا موثر ہے۔ ڈاکٹر عبد اﷲ کے بقول:
’’ کچھ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان کی ’’داستان غدر‘‘ بھی اسی مسدس کی منشور شکل ہے (۴۰)۔
ڈاکٹر خلیق احمد نظامی نے ایک جگہ لکھا ہے ’’غالبؔ دلی تھے۔ اور دلی غالبؔ اگر یہی بات ظہیرؔ دہلوی کے لئے کہی جائے تو مطلق مبالغہ نہ ہوگا۔ ’’داستان غدر‘‘ کے ایک ایک صفحہ سے ظہیرؔ کی دلی سے محبت کا بے پناہ اظہار ہوتا ہے جس طرح غالبؔ کو دلی کے اجڑنے کا غم رہا اور اپنے خطوط میں انہوں نے جس طرح دلی کی تباہی کاماتم کیا ہے ۔ اسی طرح ظہیرؔ نے ’‘داستان غدر‘‘ میں جہاں دلی کی ’’سیر گل فروشاں‘‘ رقص و سرور کی محفلیں، قلعہ معلی کی شان و شوکت، مجلسی روابط ، شعر و سخن کی قدردانی اور دلی کے تمدن کی شاندار روایتوں پر فخر کیا ہے وہیںان کے اجڑنے پر ان کی یادوں سے جگر فگار اور روح کا آزار لئے اپنے قلم کو لہولہان کیا ہے۔ ‘‘
نثر میں ’’داستان غدر‘‘ اور نظم میں’’شہر آشوب ‘‘ اور ’’فغان دہلی‘‘ اور اصل ظہیرؔ کے دل اور دلی کے مرثیے میں اور ن کا درد و غم لفظ میں اتر گیا ہے۔ ’’فغان دہلی‘‘ غزلیہ صورت میںان کے ایک دیوان میں موجود ہے مگر اس کے اشعار جابجا داستان غدرمیں بھی استعمال کئے گئے ہیں۔ (۴۲)گویا ’’داستان غدر‘‘ میں دلی کے احوال کو درد انگیز اورموثر بنانے کے لئے انہوں نے ’’شہر آشوب‘‘ اور’’فغانِ دہلی‘‘ کا برجستہ استعمال کیا ہے۔
ادبی کوائف:
جیسا کہ پہلے ہی مذکور ہوا ’’ داستان غدر‘‘ میں دہلی کی سیاسی ، سماجی اور ادبی مجلسی رابطوں کی کہانی کہی گئی ہے ۔ ادبی کوائف کے ذیل میں ظہیرؔ نے دہلی کے علاوہ جئے پور ، الور، ٹونک اور حیدرآباد کے ادبی ماحول پر تفصیل سے اظہار خیال کیا ہے۔ خاص طور پر مشاعروں کی روایتوں اور امراء کی ادبی دلچسپیوں کو نہایت خوبی سے بیان کیا گیا ہے۔ جہاں کہیں تفصیل میں جانے کا موقع نہیں ملتا مختصر اور جامع انداز میں تبصرہ کرتے ہیں اور محض چند الفاظ میں ہی پورے ماحول کی ترجمانی کر دیتے ہیں۔ مگر انہوں نے جامعیت واختصار میں بھی طولانی مباحث کی گنجائش پیدا کی ہے۔ مثلاً الور میں ظہیرؔ و انورؔ کے خلاف سازشیں، بھوپال کے ہفت روزہ درباری مشاعرے وغیرہ تحقیق کے طالب کو دعوت فکر دیتے ہیں۔ لیکن بعض اوقات ان کی تحریر کا اختصار غالباًان کی مصلحت پسندی کی نذر ہوگیا ہے اور بات تشنہ رہ گئی ہے۔ مثلاً مرزا جواں بخت کی شادی کے موقع پر کہے گئے ذوقؔ اور غالبؔ کے سہرے معاصرانہ چشمک کی عمدہ مثال ہیں۔ تاریخ ادب اردو میں اس معرکہ کا خصوصیت کے ساتھ ذکر کیاگیاہے۔ ظہیرؔ نے اپنی کتاب میں مرزا جواں بخت کی شادی کی تفصیل کا تو اہتمام کیا ہے مگر اس ادبی معرکہ کے ذکر کو سراسر نظر انداز کیا ہے اور نہایت ہی مختصر طور پر صرف اتنا لکھا ہے کہ :
’’جن شعراء نے قصائد تہنیت اور سہرے وغیرہ لکھے تھے باوجود یہ کہ ملازم تھے مگر سب کو صلے و خلعت و انعام عطا ہوئے ۔‘‘(۴۳)
معلوم ہوتا ہے کہ ظہیر ؔنے ذوقؔ و غالبؔ کی چشمک اور سہرے کے قصے سے دانستہ گریز کیا ہے۔ شاید اس میں یہ مصلحت رہی ہو کہ ذوقؔ تو انہیں عزیز تھے مگر غالبؔ بھی ان کے لئے غیر نہ تھے بہر حال اگر ظہیرؔ اس واقعہ کو بیان کرتے تو ادبی مورخ ان پر ضرور اعتماد کر تے کیونکہ وہ بذات خود چشم دید گواہ تھے۔
مختصریہ کہ دلی کی معاشرت ، مغلیہ تمدن کی جھلک، اسلامی انداز تربیت اور شاہ نصیرؔ سے لے کر داغؔ کے یہاں تک کی محفلوں کے ذکر میں ظہیرؔ بڑے پر خلوص نظر آتے ہیں اور ان محفلوں کے اجڑجانے سے جو درد مندی ان کے بیان میں پیدا ہوگئی ہے اس سے قاری متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ دہلی کے علاوہ جن مقامات پر ظہیرؔ کے شب و روز گزرے ہیں وہاں کے ادبی میلانات و رجحانات کے علاوہ وہ وہاں کی خصوصی رسموں اور روایتوں کاذکر بھی کرتے ہیں۔ مثلاً ٹونک میںان کی بہتر غزل کے جواب میں اساتدہ کا اپنی غزل کو چاک کر دینا داد تحسین کی عجیب و غریب روایت کی طرف اشارہ ہے۔ خیر دادو تحسین کے اس انداز میں مبالغہ ہوسکتا ہے مگر نواب کے مشیر سخن اور ممتاز شاعر مضطرؔخیر آبادی کا برملا اظہار کرنا کہ ’’انہیں باتوں سے تو یہ لوگ استاد کہے جاتے ہیں‘‘ احترام اور قدردانی کی ایک مثال ہے۔ بعض ایسی روایتیں بھی شامل کتاب ہیں جن میں ’’داستان‘‘ کا سا انداز پیدا ہوگیا ہے۔
ظہیرؔ کی آپ بیتی ڈاکٹر سید عبد ا ﷲ کی زبان میں ’’ داستان الم و افزا ہے‘‘ کہ جس میں شرفائے دہلی کی پریشانی اور ان کا قتل (خود ظہیرؔ کے خسر امیر مرزا انگریزوں کے ہاتھوں بے رحمی سے قتل کئے گئے تھے) غربت و مسافرت کی بے سکونی وبے اطمینانی اور آخر عمر یں اپنی ناقدردانی نے ظہیرؔ کے قلم سے ہر ہر جملے میں ایک صابر و شاکر شخصیت کے بکھراؤ کو ٹوٹے ہوئے شیشوں کی طرح چننے کی سعی کی ہے جس میں خود ان کی انگلیاں بھی فگار ہیں۔
زبان:
’’داستان غدر‘‘ میں اپنے طرز تحریر سے متعلق ظہیرؔ کا مندرجہ ذیل بیان قابل غور ہے:
’’عبارت نگاری اور انشا پردازی سے بحث نہیں۔ راست گوئی اور صدق گفتاری سے کام ہے مقفّیٰ و مستجع سے طبیعت عاری ہے۔ ہر چند کہ میری طرز تحریر آج کل کے عبارت نگاروں کے خلاف ہے ، ہوا کرے ، مجھے اپنے ادائے مطلب سے مراد ہے۔‘‘………
غرض میں اپنی سیدھی سادی روز مرہ کی بول چار میں اپنی سرگزشت لکھ رہا ہوں ، اخبار نویس نہیں۔ قصہ خواں نہیں، میری جو زبان مادری ہے زمانہ شیر خوارگی میں جو الفاظ اپنے پالنے والوں کی زبان سے سنے ہیں وہ میرے ذہن نشین ہوگئے ہیں اور میرے استاد و اتالیق نے جو مجھے تعلیم کئے ہیں وہ نقش کا لحجر ہیں میری
زبان سے اور میرے قلم سے وہی الفاظ نکلتے ہیں ………اکثر مکالمات اور بیانات میں جو الفاظ میں نے دوسری زبان سے سنے ہیں من و عن وہ کے وہ ہی برقرار رکھے ہیں اپنی جانب سے تبدل اور تحریف کو روا نہیں رکھا ۔(۴۴)
ظہیر ؔبے تکلف نثر کے قال ہیںاور اسلوب بیان میں کسی قسم کے تصنع کو روا نہیں رکھتے تاکہ ’’راست راست بے کم و کاست‘‘ مطلب ادا ہوسکے چنانچہ ’’داستان غدر‘‘ کی زبان نہایت سلیس و سادہ ہے اور روز مرہ سے قریب ہے ۔’’داستان غدر‘‘ کی تکمیل ۱۹۱۰ء میں ہوئی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب نئی قدریں اپنے قدم جماچکی تھیں۔ غالبؔ کا خطوط کا نیا اسلوب سر سید احمد خاں کی انشا پردازی و مضمون نگاری اور مولانا حالی کے سادہ و سلیس انداز نے اردو نثر کے سرمایہ میں دقیع اضافہ کیا تھا اور زبان و ادب کو اظہار کا سلیقہ بخشا تھا۔
ظہیرؔ نے جس عہد میں پرورش پائی وہ اردو شاعری کاعہد زریں تھا مگر اس کے برعکس اردو نثر کی تہی دامنی کا اندازہ اس سے لگایاجاسکتا ہے کہ ہمارے نثری ادب میں لے دے کر چند نثری داستانیں تھیں جن پریوں کے قصے تھے گویا مافوق الفطرت عناصر کی کمی نہ تھی۔ البتہ زندگی کی سچی تصویریں ناپید تھیں۔عیش و عشرت کے جھولوں اور میٹھے خوابوں کے پالنوں میں زندگی کھوئی ہوئی تھی، لیکن زمانہ ایک انگڑائی لے کر جاگ اٹھا تو کشت حیات میں نئی فصلوں کی برکتوں نے نت نئے پھول کھلائے نئے باغ مہکے، سخت حالات کی چٹانوں کو پھوڑ کر وقت کی تیز دھوپ میں تپ کر تہذیب نو کی بارش میں نہا کر ، جو بیج پھوٹ نکلے تھے کچھ ہی عرصے میں ان کے میووں کے ذائقے نے زندگی کی تمام تر تلخیوں کو مٹا دیا تھا۔
جنگ پلاسی اور پھر اس کے بعد فوراً ٹیپو سلطان کی شہادت کے نتیجے میں انگریزوں کو ہندوستان میں اقتدار کی کنجیاں مل گئیں تھیں اب وہ پورے ملک میں حکومت کرنے کے لئے اپنی حکمت عملی کے جال پچھانے میں مصروف ہوگئے اس مقصد کی ماتحت انہوں نے کلکتے میں فورٹ ولیم کالج قائم کیا اور ہندوستان بھر کے علماء اور ادبا اور شعراء کو کالج میں ملازمت کی پیشکش کی گئی ۔ اتفاق سے جان گلکرسٹ جسے مشرقی علوم و فنون سے خصوصاً اردو زبان سے غایت درجہ لگاؤ تھا اس کالج میں اردو کا سربراہ مقرر ہوا۔ اور اس کی نگاہ جوہر شناس نے کالج میں اردو تعلیم و تربیت نیز تصنیف و تالیف کے لئے جن ’’منشیوں‘‘ کا انتخاب کیا تھا ان میں میرا من دلی والے بھی تھے جن کے آباء و اجداد عہد ہمایوں سے لے کر اب تک مغل دربار سے وابستہ رہے اور مغلیہ تہذیب و تمدن کے پروردہ کہلائے حالات نے ضرور میرامن کو دلی سے کلکتے میں لا بٹھایا تھا۔ مگر وہ یہاں وہ کام کر گئے جو رہتی دنیا تک ان کو زندہ و پائندہ رکھے گا۔ دہلی میں شاید انہیں یہ ابدیت حاصل نہ ہو پاتی، کلکتہ کے فورٹ ولیم کالج سے وابستہ ہونے پر انہوں نے گلکرسٹ کی فرمائش کو عملی جامہ پہنایا اور قصہ ’’چہاردرویش‘‘ کا ترجمہ ’’ باغ و بہار‘‘ کے نام سے جب اردو زبان میں پیش کیا تو اردو دنیا نے ان کے اسلوب بیان اور طرز نگارش کے احسان کا برملا اعتراف کیا۔ ڈاکٹر عبیدہ بیگم رقم طراز ہیں:
’’فورٹ ولیم کالج کے قیام کا بنیادی مقصد زبان و ادب کی خدمت نہیں تھا نہ تو وہاں کے منتظمین اس رخ پر کام کر رہے تھے اور نہ ہی مسنفین سب کے سامنے ان کا مفاد اور ان کی ضرورتیں تھیں۔ (۴۵)
’’تقریباًہر مصنف کو صاحبان عالی شان اور خصوصاً گلکرسٹ نے یہ واضح ہدایت دے رکھی تھی کہ تصانیف یا ترجموں کی زبان سادہ و سلیس اور عام بول چال کی زبان کے موافق ہو۔‘‘(۴۶)
’’فورٹ ولیم کالج کی نثری پالیسی کی بہترین نمائندگی ’’باغ و بہار‘‘ کرتی ہے۔ یہ داستان میرامن نے اس محاورے سے لکھی ہے جیسے کوئی باتیں کرتا ہے۔(۴۷)
چنانچہ ۱۸۰۲ء میں ’’باغ و بہار‘‘ کی اشاعت کے ساتھ اردو نثر کاوہ اسلوب سامنے آیا جو اپنے عہد ہی میں مثالی نہیں تھا بلکہ آنے والے دور کے لئے بھی قابل تقلید ثابت ہوا۔
میرا من کی زبان سے تکلف طرز تحریر کی نمائندگی کرتی ہے۔ عام فہم الفاظ اور روز مرہ محاورے سے سنبھل کر فطری اور رواں دواں اسلوب کی شناخت بن گئی ہے۔ یہ نہیں کہ میرامن اپنے زمانے کے چلن سے بالکل ہی احترام کرتے ہوں۔ یعنی فارسی، و عربی تراکیب سے دانستہ گریز کرتے ہوں، مگر یہ تمام صورتیں ’’باغ و بہار‘‘ کے اسلوب میں اس طرح جلوہ فرماہیں کہ میرامن کی ذاتی صلاحیت پر حیرانی ہوتی ہے کہ انہوں نے عرابت کو کہیں بھی کسی بھی موقع پر بوجھل نہیں ہونے دیا ہے روانی کا ایک دریا ہے کہ بہتا چلا آتا ہے ۔بھاکا یا بھاشا کے رسیلے الفاظ اس طرح گھل مل گئے ہیں کہ زبان و بیان میں نہ کہیں بناوٹ محسوس ہوتی ہے اور نہ تصنع ہی جھلکتا ہے ۔ڈاکٹر عبیدہ بیگم کے بقول:
’’ان کی دسترس میں سہل اور عام فہم الفاظ روز مرہ کا ایک وسیع ذخیرہ ہے جس کے سہارے وہ ہر موقع کی مکمل اور بھر پور تصویر پیش کرتے ہیں ۔‘‘(۴۸)
اس سے میرامن کی قدرت بیان کا بخوبی اندازہ کیاجاسکتا ہے۔
غالباً سادہ سلیس نثر کا یہ نمونہ خود ایرامن کی خود اعتمادی کا ثبوت تھا۔ اور اس میں شک نہیں کہ یہ ایک جسارت تھی ۔ اپنے عہد اور اپنی روایتوں اور پابندیوں کے درمیان میرامن نے سادہ و سلیس نثر کا نمونہ ’’باغ و بہار‘‘ کی صورت میں پیش کر کے ایک لازوال کارنامہ انجام دیا ہے۔
لیکن میران کی اس جسارت کا نتیجہ ان معنوں میں زیادہ برآور نہ ہوسکا کہ اپنے عہد کی روایت شکنی کے باوجود ان کا اسلوب روایتوں اور پابندیوں سے زیادہ دنوں نبرد آزما نہ رہ سکا۔ ‘‘ صاحبان عالی شاہ ’’ادبی خدمات‘‘تو انجام دے نہیں رہے تھے ۔ انہیں توسادہ و سلیس عبارتوں کے ذریعہ سے ہندوستان کی تہذیب و معاشرت آگاہی چاہئے تھی ۔ لہٰذا فورٹ ولیم کالج سے باہر ’’باغ و بہار‘‘ کے اسلوب کافی الفور اس طرح خیر مقدم نہیں ہوا جس طرح آج اس کو سراہا جاتا ہے۔ خواص کے ایک بڑے طبقہ نے اور خصوصاً لکھنؤ والوں نے دلی کے گلی کوچوں کی اس عام زبان کو شرافت کے دائرے سے باہر جانا اور اسے منہ لگانا اپنی توہین سمجھا۔ چنانچہ ایک ہنگامہ بپا ہوا اور میرامن کے سادہ و پرکار اسلوب اور ’’باغ و بہار‘‘ کے طرز پر ’’شہر گلزار‘‘ کے باوضع اور قطع دار ’’محلوں میں ناک بھوں چڑھائی گئی اور ٹھٹھول اڑایا گیا۔ یہاں تک کہ رجب علی بیگ سرور نے ’’فسانہ عجائب ‘‘ لکھ کر میرامن اور دلی والوں کو ہدف بنایا کہ مقفّیٰ اور مسجع عبارت کا چلن نبھایا اور واقعہ یہ ہے کہ ایک عرصہ تک اردو نثر پر پرتکلف عبارت کے سامری کا راج رہا۔
۵۱-۱۸۵۰ء میں مرزا غالبؔ کو بادشاہ کی طرف سے تاریخ تیمور گورگانی کی ترتیب و تالیف کا کام سونپا گیا۔ نتیجتاً وہ اپنی مصروفیت کے باعث احباب سے مراسلت کے تقاضوں کو پورا کرنے میں کس قدر وقت محسوس کرنے لگے مگر چونکہ وہ اپنی وضع خاص سے مجبور تھے اس لئے جس طرح ممکن ہوتا فوری جواب بھجواتے چنانچہ انہیں اس صورت میں مراسلت کے لئے عبارت آرائی اور نثر نگاری میں لفظی بازی گری کا ہنر دکھانے کا کوئی موقع نہیں تھا۔ یوں بھی فرسودگی اور تصنع سے ان کی طبیعت ابا کرتی تھی۔ ان کامزاج کسی قسم کی بناوٹ آراستگی اور ریاکاری کا متحمل نہیں ہوسکتا تھا۔ لہٰذا بیک قلم تختہ کاغذ پر جو لفظ منصہ شہود میں آئے وہ ان کے طرز خاص کا ترجمان قرار پائے اور اس طرح بے تکلف نثر کا ایسا اسلوب وجود میں آیا کہ ایک زمانہ ان کا معترف اور مقلد ہوا۔ مگر تقلید میں بھی کوئی وہ سلیقہ نہ برت سکا جس سے غالبؔ کی نثر عبارت ہے ۔ خود غالبؔ کو بھی اس باتکا احساس ہوگیا تھا کہ وہ اردو کی نثر ی ادب میں اپنی مکتوب نگاری کے وسیلے سے گویا ایک ایجاد کر رہے ہیں۔مرزا حاتم علی مہر کو لکھتے ہیں:
’’میں نے وہ انداز تحریر ایجاد کیا ہے کہ مراسلہ کو مکالمہ بنادیاہے ‘‘(۴۹)
مرزا غالبؔ کی مکتوب نگاری پر تفصیلی مباحثہ کا یہ موقع نہیں لیکن اس حقیقت کا اظہار ناگزیر ہے کہ غالبؔ کے معاصرین نے اس ’’انداز تحریر ‘‘ کا خاصہ اثر قبول کیا اور اردو نثر کا وہ اسلوب جس کا سنگبنیاد میرامن رکھ چکے تھے ۔ غالبؔ نے صحیح معنوں میں اپنے طرز خاص سے اس کی بناء رکھی اور سرسید اور ان کے رفقاء نے اس پر ایک خوبصورت عمارت تعمیر کی ۔ لیکن اس سے انکار نہیں کیاجاسکتا کہ غالبؔ کے عہد میں بھی اردو نثر اپنے پر تکلف انداز کے دام میں گرفتار تھی۔ خود غالبؔ کے بعض خطوط بھی اس سحر سے آزاد نہیں کہے جاسکتے۔ مجموعی حیثیت سے غالبؔ کی شعوری کوششوں کے طفیل اردو ادب کو نثر نگاری کا وہ میدان ملا جس کی وسعتوں نے ہزار عالموں کی خبر دی اور اس دور کے مصنفین و مؤلفین کو آزاد اورخوشگوار فضا میسر ہوئی۔
اردو نثر میں انقلاب آفریں اقدام کرنے والوں اور خوشگار فضا قائم کرنے والوں میں سر سید احمد خاں پیش پیش تھے۔ اگرچہ وہ بھی ابتداء میں اسی مسلک کے پیرو کار تھے جس کی نمائندگی رجب علی بیگ سرور کی عبارت آرائی سے ہوئی تھی یعنی سرسید کی ابتدائی تحریروں پر مشکل پسندی اور مقفّیٰ کا رنگ چڑھا ہوا تھا لیکن بہت جلد انہوں نے اس سے نجات پائی کیونکہ یہ انداز بہر حال ان کے مقاصد کے تابع نہ تھی تہذیب الاخلاق کے ذریعہ سے انہوں نے اردو زبان کو عشق و عاشقی کے دائرے سے نکال کر ملکی سیاسی ، اخلاقی، تاریخی ہر قسم کے مضامین کے لئے زور و اثر وسعت و جامعیت اور سادگی و صفائی کے عناصر سے مالا مال کیا اور اردو انشاء پردازی کو اصل مرتبہ عطا کیا۔ ’’تہذیب الاخلاق‘‘ میں وہ ایک جگہ لکھتے ہیں:
’’جہاں تک ہم سے ہوسکا ہم نے اردو زبان کی علم و ادب کی ترقی میں اپنے ان ناچیز پرچوں کے ذریعے سے کوشش کی۔ مضمون کے ادا کا ایک سیدھا اور صاف طریقہ اختیار کیا۔ رنگین عبارت سے جو تشبیہات اور استعارات خیالی سے بھری ہوئی ہے اور جس کی شوکت صرف لفظوں ہی لفظوں میں رہتی ہے اور دل پر اثر اس کا کچھ نہیں ہوتا پرہیز کیا اس میں کوشش کی کہ جو کچھ لطف ہو مضمون کے ادا میں ہو۔ وہی دوسرے کے دل میں پڑے تاکہ دل سے نکلے اور دل میں بیٹھے۔‘‘
یہی وہ پس منظر ہے جس میں ظہیر ؔکی ’’داستان غدر‘‘مرتب ہونا شروع ہوئی ۔ انہوں نے اس کتاب میں شروع سے آخر تک جس انداز بیان کو اپنایا ہے وہ سرسید کی زبان میں ’’ دل سے نکلے اور دل میں بیٹھے‘‘ والا انداز ہے۔ انہوں نے رنگین عبارت سے گریز کیا اور صداقت کی پاسداری میں انشاء نگاری کے اس عیب سے اپنے قلم کو آلودہ ہونے سے بچالیا جس کی شوکت لفظوں لفظوں میں رہتی ہے۔ ’’یہی وجہ ہے کہ جو دردمندی میر کی شاعری میں نظر آتی ہے وہی درد مندی ظہیرؔ دہلوی کی نثر میں شامل ہوگئی ہے۔ اور ان کی تحریر میں وہ درد و اثر پیدا ہوگیا ہے جو کسی صاحبِ دل شاعر کے شعر میں محسوس کیاجاسکتا ہے۔
دراصل انہوں نے اپنی زبان سے دلی کے مرقعوں کو پیش کیا ہے۔ دلی کی تہذیب اور معاشرت کے علاوہ ان حالات و واقعات کی تصویریں بھی پیش کی ہیں جن سے وہ نبرد آزما رہے ۔ ان علاقوں کی روایتوں کا ذکر کیا جن سے ان کے تمدن کی جھلک ملتی ہے اور یہ سب اسی وقت ممکن ہے جب کوئی ادیب زبان و بیان پر اتنی ندرت رکھے کہ وہ واقعات اور واقعات کی جزئیات کو بھی صفائی و سادگی کے ساتھ بیان کر سکے۔ ظہیرؔ کا قلم ہر واقع کی تصویر اتنی صفائی کے ساتھ کھینچتاچلا جاتا ہے کہ اس پر جیتی جاگتی تصویر کا گمان ہوتا ہے۔
یہ درست ہے کہ ظہیرؔ نے بالواستہ یا براہ راست اپنے زمانے کی ادبی تحریکات کو قبول نہیں کیا تھا لیکن بہت محتاط ہو کر یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ آئندہ یہ اثرات آہستہ آہستہ ان کے یہاں غیر شعوری طور پر قبولیت کا شرف پاتے رہے ۔ شعوری طور پر ظہیرؔ کی ’’داستان غدر‘‘ دلی کی ٹکسالی زبان کا ایک عمدہ نمونہ ہے۔ ان کی اردو میں دبستان دہلی کی نثر کے دونوں نمونے یکجا نظرآتے ہیں۔ وہ جامع مسجد کی سیڑھیوں کی زبا ن ہو کر قلعی معلی کا روز مرہ و محاورہ بہر حال ان کی نثر میں شرفائے دہلی کا لہجہ نمایاں ہے۔
’’ڈاکٹر صبیحہ انور نے ’’داستان غدر‘‘ کے اسلوب بیان کے سلسلے میں لکھا ہے کہ :
’’اس کتاب میں فارسی آمیز زبان استعمال کی گئی ہے مگر کوئی دشواری نفس معاملہ کو سمجھنے میں نہیں آتی‘‘۔(۵۰)
اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ ظہیر ؔکی پرورش و پرداخت اور تعلیم و تربیت میں قلعہ معلی کے ماحول کو بڑا دخل تھا۔ ظل سبحانی شاہ بہادر ظفر کی تلمیذ اور ان کے قرب و صحبت کا نتیجہ یہ تھا کہ قلعے کی تہذیب اور زبان کی نزاکت و لطافت ظہیرؔ کے مزاج کا جز و خاص بن گئی تھی۔ پھر شاہ نصیر کے شاگر ذوقؔ سب بھی انہوں نے شاعری میں فیض تلمذ حاصل کیا۔ احباب میں شیفتہؔ و عارفؔ اور نیرو رخشاں تھے۔ غالبؔ و مومنؔ سے ذہنی قربت تھی لیکن قلعہ معلی کے ماحول کوظہیرؔ کی ذہنی تربیت میں اولیت حاصل ہے ۔ قلعہ معلی کی ٹکسالی اردو زبان کی سند تو اور لوگوں نے بھی لی ہے۔ جن لوگوں کی عمر کا ایک بڑا حصہ قلعہ معلی میں گزرا ہو ان کے لئے اردو اکتسابی زبان نہیں تھی۔ قلعے کا محاورہ اور زبان کا علم اوروں کے لئے سند تھا۔ آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ طفر کا کلام قلعہ معلی کی ٹکسالی زبان کا بہترین نمونہ ہے جس میں ہندی مرکبات (ہندی الفاظ کا ہندی کے ساتھ جوڑ جیسے باگ ڈور چاند رات)فارسی مرکبات (فارسی الفاظ کا فارسی الفاظ کے ساتھ جوڑ جیسے پاک دامن، تیرہ بخت، سوختہ جگر اور ہندی فارسی مرکبات کا بعض صورتوں میں چلن جائز تھا جیسے منہ زور، جگت استاد وغیرہ اس کے علاوہ قلعہ معلی کی زبان کا لطف دراصل روز مرہ کی صفائی اور محاورے کی برجستگی میں تھا۔
غالبؔ کے یہاں یہ اثرات شاید و باید ہی نظر آتے ہیں۔ مگر نصیرؔ اور ذوقؔ کے یہاں قلعہ معلی کی وہ تہذیبی میراث تھی جس پر فارسی کا رنگ اور دبستان دہلی کے اصولوںکی چھاپ تھی۔ بہادر شاہ ظفرؔ نے اس رنگ کو نکھری ہوئی صورت میں پیش کیا اور سادگی و پرکاری اور صفائی و شتگی کی راہ ہموار کی ۔ نظم کے ساتھ ساتھ تقریباً نثر میں بھی یہی صورت پیش آئی۔ دہلی میں اردو زبان کا ارتقائی عمل بظاہر یکساں نظر آتا ہے لیکن بغائر دیکھا جائے تو جسے ’’دہلویت‘‘ کہتے ہیں وہ دہلی کے گلی کوچوں کی زبانسے قدرے مختلف تھی۔ میر کی جامع مسجد کی سیڑھیوں والی زبان یا میرامن کی ’’باغ بہار‘‘ کی اردو اپنے فطری انداز میں پروان چڑھ رہی تھی جبکہ محل سراؤں میں اور قلعہ معلی کی چار دیواری میں زبان ارود کی پرورش پرداخت میں کسی قدر تکلفات بھی شامل ہوگئے تھے۔ بقول سید احمد دہلوی:
’’دہلی میں ایک ماں کی دو بیٹیاں راؤچاؤ سے پرورش پارہی تھیں۔ بڑی بیٹی کا مسقط الراس قلعہ معلی تھا، چھوٹی کا دلی شہر، شہر اور قلعہ کی بیگماتی زبان اور مردانہ بول چال میں بھی بڑا فرق تھا۔ ‘‘(۵۱)
چنانچہ اس پس منظر میں جب ہم ظہیر ؔکی ’’طراز ظہیریؔ‘‘ یا’’ داستان غدر‘‘کے اسلوب نگارش پر غور کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ قلعہ معلی سے جب تک ان کی شدید ذہنی وابستگی رہی قلعے کے اثرات ان کے اسلوب بیان کی خصوصیت کی شکل میں موجود رہے۔ ظاہر ہے کہ اس زبان سے محبت اور اس کی لطافت سے ہی غرض نہیں رہی بلکہ اس کی حفاظت اور اس کے معیار کی پاسداری کا بھی انہیں ہر قدم پر خیال رہا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ظہیرؔ کا شمار اردو کے ان استاد شعراء میں کیاجاتا ہے جوزبان کی نوک پلک کو سنوارنے میں بطور خاص دلچسپی ظاہر کرتے ہیں۔
’’داستان غدر‘‘ کے ابتدائی صفحات میں عربی و فارسی الفاظ اور تراکیب اور کسی قدر مسجع انداز نگارش اس بات کا غماز ہے کہ قلعہ معلی کا ماحول مصنف کے ذہن پر غالبؔ رہا لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا جاتا ہے زبان میں صفائی ، سادگی اور برجستگی پیداہوتی جاتی ہے۔ اس کی وجہ شاید دلی سے دوری اور دلی کی تہذیب کے خاتمے کا سبب اور نئی ادبی تحریکات کے لاشعوری اثرات میں بھی ہیں۔ لیکن اس کے باوجود ظہیرؔ کے یہاں دلی کی ٹکسالی زبان کا سکہ ہی چلتا ہے۔ سادگی ، شستگی، صفائی، روز مرہ اور محاورہ کے اعتبار سے ظہیرؔ کی زبان ایک بہتر صورت میں سامنے آتی ہے تو مافی الضمیر کی ادائیگی میں ایک ناقد کے بقول”Direct vision” کے عمل کو بھی ظاہر کرتی ہے۔ ان کی نثر چونکہ دہلی وبستان کی خصوصیت سے متصف ہے اس لئے بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ داستان غدر کی زبان وہی زبان ہے جو شرفائے دہلی کی زبان کہی جاتی ہے۔ نظیر لدھیانوی کے بقول ظہیرؔ نے:
’’نثر میں وہی زبان اختیار کی جس میں وہ بچپن سے اپنے گھر میں اور احباب میں بات چیت کرتے تھے ۔‘‘(۵۲)
ان کی زبان اور قلم سے وہی الفاظ ادا ہوتے ہیںاور وہ وہی اسلوب اختیار کرتے ہیں جس کی سند اہل زبان لیتے رہے ہیں آج ہم شیر خوارگی بھلے ہی بولتے لگتے ہوں لیکن اس لفظ کی صحت پر نگاہ کیجئے تو پتہ چلے گا کہ ظہیر ؔنے’’شیر خواری‘‘ کو صحیح استعمال کیا ہے۔ علاوہ ازیں دلی کا روز مرہ اسی طرح مستعمل ہوا ہے۔ جس طرح کے عام بول چال میں بولا جاتا ہے
نظیرؔ لدھیانوی لکھتے ہیں کہ ’’ظہیرؔ نے اس کتاب میں ہر جگہ برابر کومؤنث لکھا ہے۔ ‘‘(۵۳) لیکن ایسا نہیںہے جہاں کہیں تقابلی صورت پیدا ہوئی ہے ۔ظہیرؔ نے مذکر بھی استعمال کیا ہے ’’اور ہزار جلد کتاب ہر اقسام کی وہ سب لٹ لٹا کر برابر ہوگیا ۔‘‘
ظہیرؔ کی نثر نگاری کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ فارسی تراکیب کے علاوہ وہ عربی فقرے اور عربی مرکبات کو بڑی روانی و چابکدستی کے اس طرح استعمال کرتے ہیں جیسے وہ ان کے اسلوب کا جزو خاص ہوں مثلاً:
’’ہر چند سلطنت کو ڈیڑھ سو برس پیشتر خاندانِ عالی شانِ تیموریہ دودمانِ الوالعزم گورگانیہ کو ہذا فراق بینی و بینک کہہ کر رخصت ہوچکی تھی ۔ ‘‘
’’حضور لامع النور نے حکمی احسن اﷲ خاں کو حکم دیا…‘‘
’’شب کے وقت سب گھر بار اور اثاث البیت جوں کاتوں گھروں میں چھوڑ کر‘‘……لڑائی کیا قیامت کے آثار و نمودار تھے اور مصداق ازازلزلت الارض زلزالہا کا سکار تھا۔‘‘
’’داستان غدر‘‘ کی سب سے بڑی خوبی اس کے دلچسپ انداز بیان میں ہے۔ بعض ایسی محیر العقل روایات اور حیرت انگیز واقعات اس کتاب میں جگہ پاگئے ہیں کہ جن کی پیش کش میں ظہیرؔنے داستانوی انداز پیدا کر دیاہے۔ اگرچہ ’’داستان غدر‘‘ان کی زندگی کے اوراق پریشان ہیں جنہیں اس طرح مرتب کیاگیاہے کہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہم ہر قدم پر ان کے ساتھ چل رہے ہیں۔ اور ہر واقعے اور ہر معاملے کے ہم بھی چشم دیدگواہ ہیں۔ یہ ظہیرؔ کا جادونگار قلم ہی ہے جو قاری کو پوری طرح اپنی گرفت میں لے لیتا ہے اوروہ اپنے آپ کو ۱۸۵۷ء کی دلی کے معاشرے کا ایک حصہ سمجھنے لگتا ہے۔
ڈاکٹر سید عبد اﷲ کے اس حیال سے ہمیںبھی اتفاق ہے کہ ظہیرؔ نے ’’ایک ایک فقرے سے اشخاص متعلقہ کی ذہنی حالتوں کی تصویریں اس عمدگی سے کھینچ دی ہیں کہ تعجب ہوتا ہے ۔‘‘(۵۲)
چنانچہ ’’مولا بخش ہاتھی‘‘ کا قصہ دلچسپ بھی ہے اور عبرت انگیز بھی۔ سانڈرس کا قہر انسانوں پر ٹوٹا ہی مگر اس کی بربرست نے اور شکی مزاج نے مولا بخش ہاتھی میں بھی بغاوت کی بوسونگھ لی اور بدک کر بولا‘
’’یہ ہاتھی باغی ہے اسے نیلام کردو! ۔ ‘‘
دہلی شہر پر تباہی کے بادل چھائے ہوئے ہیں ۔ ایک طرف باغی فوج اور دوسری طرف انگریز دشمن ، مگر دلی کی تباہی و بربادی میں اپنوں اور پرایوں میں جیسے کوئی فرق ہی نہ تھا۔ پوربیوں کو تو لوٹ کا بہانہ چائے۔ اس لئے جس گھر کو لوٹتا تھا کہہ دیا ۔’’ یہاں میم چھپی ہوئی ہے‘‘۔
قلعہ معلی کے تہذیبی زوال کی اس سے بڑھ کر اور کیا مثال ہوگی کہ آداب شاہی کا لحاظ کئے بغیر لال قلعے میں چند سوار دندناتے ہوئے چلے آئے ۔ حکیم احسن اﷲ خاں نے انہیں دیکھتے ہی کہا ’’ سب صاحب فاتحۂ خیر پڑھیں، قضا آن پہنچی ‘‘ کیا اس واقعے سے سلطنت مغلیہ کے امراء کی بزدلی ظاہر نہیں ہوتی یا شاید ان میں اتنا بھی حوصلہ باقی نہ رہا تھا کہ وہ حالات کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کرتے۔
انگریزوں کے ظلم و بربریت کی داستان کو ظہیر نے صرف ذیل کے ایک فقرہ میں سمودیا ہے:
’’مٹکاف صاحب شکار کھیلتے تھے، جس کو جوان دیکھتے تھے طپنچہ سے شکار کرتے تھے ۔ ‘‘
واقعہ یہ ہے کہ ظہیرؔ کا قلم نوکِ نشتر کا سا کام کرتا ہے اور جگر کے پار اتر جاتا ہے۔ درد مندی، مجبوری اور بے کسی کا احوال بھی سنئے جب دلی کے شرفا و نجبا اپنی جن کی امان میں نکل کھڑے ہوئے۔
’’قافلہ چلا مگر اب آغاز و انجام اس سفر کا کچھ نہیں معلوم ۔ ‘‘
اس ایک جملہ میں کتنی حسرتیں پوشیدہ ہیں اس کا اندازہ کچھ وہی لوگ کر سکتے ہیں جنہیں زندگی کے سخت امتحان سے گزرناپڑا ہو۔
اپنے محسنوں کا اعتراف کچھ اس انداز سے کرتے ہیں کہ ایک ہی جملے میںممدوح کی سیرت و کردار کا ایک ایک نقش ابھر آتا ہے۔ مثلاً نواب ابراہیم خاں خلیل وائی ٹونک کی داد و دہش اور قدر و منزلت کا اعتراف کس خوبی سے کیاگیاہے۔
‘‘قصیدہ بغیر صلہ کے سننا حرام جانتے ہیں۔‘‘
ظہیر کی یہ ایمائیت ا ن کی نثر کووقیع بناتی ہے اور ان کے اسلوب میں گہرائی پیداکرتی ہے۔ اکثر موقعوں پر کسی واقعے کے بیان میں وہ صیغہ حاضر کا استعمال کرنے لگتے ہیں اور بیانیہ انداز ایک دم مکالماتی صورت اختیار کر لیتا ہے اور وہ قاری کو باہم گفتگو میں شریک کر لیتے ہیں اس موقعے پر ظہیرؔ حسب مراتب زبان کے استعمال کو روا رکھتے ہیں۔
’’ارے ڈوگری ہے ڈوگری مر جائے گی ۔ ‘‘
’’بھیّن ہموتو لڑچکے اب تم ہی لڑو۔‘‘
یہ اس کتاب کی اضافی خوبی ہے اور ظہیرؔکے اسلوب نگارش میں ایک محتاط رویہ بھی ظاہر کرتی ہے البتہ کہیں کہیں ان کی بات میں ایک طرح سے ’’ادھورے پن‘‘ کا احساس ہوتا ہے اس کی وجہ شاید یہ رہی ہو کہ و ہ جلد سے جلد اپنی خود نوشت کومکمل کر لینا چاہتے ہوں گے۔ لہٰذا جو بات ایک بار قلم سے نکل گئی اس پر نظر ثانی کی ضرورت محسوس نہ ہوئی ۔مثلاً اپنے برادر خورد امراؤ مرزا انورؔ دہلوی کے انتقال کی بابت لکھتے ہیں:
’’اب نوکری سے یکسو ہو کر خانہ نشین ہوا ہوں اور میرا بھائی لی جا کر ملازم ہوگیا ہے۔دو تین سال میں بے روزگار رہا۔ پھر میں بھوپال گیا ہوں اور وہاں مشاعرہ نواب شاہ جہا ں بیگم صاحبہ کے مواجہہ میں ہوئے ہیں۔ ان مشاعروں میں شریک رہا ہوں۔ چند غزلیں جب لکھی گئیں نواب صدیق حسن نے مجھے امیدوار کیا تھا۔ چار ماہ میں ٹھہرا رہا پھر مجھے انتقال برادرم کی خبر پہنچی میں واپس جے پور آگیا۔تو نواب صاحب نے فرمایا کہ تمہارے بھائی کا انتقال ہوگیا ہے۔ مجھے اسکا نہایت صدمہ ہے اب میرے پاس رہئے ۔‘‘(۵۳)
اگرچہ ابتداء میں ہی ظہیرؔ یہ لکھ چکے ہیں کہ میرا بھائی دلی جا کر ملازم ہوگیا ہے، مگر دو تین سال کا عرصہ گزرجانے کے بعد جب ظہیرؔ بھوپال میں اپنے بھائی کے انتقال کی خبر پا کر جے پور واپس آتے ہیں اور نواب رونق ان کی تسلی فرماتے ہیں تو ان کا بیان خلط ملط ہوجاتا ہے اور خواہ مخواہ یہ شک پیدا ہوتا ہے کہ ممکن ہے کہ اس عرصے میں انورؔ جے پور آگئے ہوں اور وہیں انتقال کیاہو۔ چنانچہ رام بابو سکسینہ مصنف تاریخ ادب اردو اسی غط فہمی میں یہ فیصلہ صادر فرماتے ہیں کہ انور نے :
’’ جئے پو رمیں عین جوانی میں بعمر ۳۸ سال انتقال کیا۔‘‘(۵۴)
اسی طرح مالک رام اور دیگر حضرات کو تسامح ہوا ہے ۔ دیوان انور( مرتبہ لالہ سری رام) میںظہیرؔدہلوی کی تقریظ میں واضح الفاظ میں یہ بیان موجود ہے۔
’’۱۳۰۲ ھ میں عمر جوانی میں قریب سن چہل سالگی یا کمتر ازیں دار فانی سے بمقام دہلی داعی اجل کو لبیک کہہ کر رہگزائے عالم جادوانی ہوئے ۔‘‘ انا ﷲ و انا الہ راجعون (۵۵)
اسی طرح ٹونک میں شعر و شاعری کے سلسلے میںظہیرؔقمطراز ہیں:
’’ غرض کہ صدہا اس قسم کے معرکے ہوئے حالانکہ سوائے ماہرؔ نواب سلیمان صاحب اور بسملؔ صاحب اور مضطرؔ صاحب سب میرے دوست احباب تھے ۔‘‘ (۵۶)
اب اگرماہرؔ کے سوا نواب اسد، بسملؔ اور مضطرؔ کو ان کا دوست سمجھا جائے تو یہ نہ بھولنا چاہئے کہ اسدؔاسیر لکھنوی کے شاگرد تھے۔ اور اہل دہلی کوخاطر میں نہ لاتے تھے۔ خیر اسدؔ کی بات جانے دیجئے خود ظہیرؔ مضطرؔ خیر آبادی کی غزل کی کامیابی پر خوش نہیں ہیں۔ لکھتے ہیں :
’’ایک شہرت سی شہرت ہو رہی ہے حالانکہ میرے شاگر احمد سعید خاں عاشقؔ کی غزل مضطرؔ سے کم نہ تھی بلکہ مذاق زبان میں بڑھی ہوئی تھی ۔ (۵۷)
لیکن خیر اس قسم کی باتوں کو خود نوشت سوانح نگار کی نفسیاتی کمزوریوں سے تعبیر کرنا چاہئے۔ بیان کی وضاحت کے سلسلہ میں ان کا رویہ ایسا غیر محتاط نہیں ہے ، بلکہ شرافت اور اعلیٰ ظرفی کا تقاضا تو یہی ہے کہ اس قسم کی باتوں کو ڈھکے چھپے الفاظ میں بیان کیا جائے۔
غرض یہ کہ ظہیرؔ کی شاعری کی طرح نثری ادب میں ’’داستان غدر‘‘ کی اہمیت اور افادیت کو نظر انداز نہیں کیاجاسکتا ، بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ان کی مقبولیت کا سبب ان کی شاعری نہیں بلکہ ان کی نثر یعنی ’’داستان غدر‘‘ ہے۔ اس داستان کامسودہ اگر اشتیاق حسین شوق نبیرۂ آزاد آغا محمد طاہر کے حوالینہ کرتے اور یہ مسودہ اشاعت کے مراحل سے نہ گزرتا تو غالباً ظہیرؔ گم نامی کے گوشے سے باہر نہ نکل پاتے۔ تاریخ ادب اردو میں یا تذکروں میں ان کا احوال عموماً ’’داستان غدر‘‘ کی بنیاد پر ہی کیا گیا ہے۔ اس کتاب کی بدولت ہی ظہیرؔ کو شہرتِ عام اور بقائے دوام کے دربار میں جگہ ملی ہے۔ ذوقؔ کے شاگردوں میں ایک طرف محمد حسین آزادؔ نے جدید اردو نظم کی بنیاد کومضبوط کیا ہے تو دوسری طرف ظہیرؔ دہلوی نے اردو نثر کے جدید اسلوب کو فروغ دینے میں جو تعاون دیا ہے اس سے چشم پوشی کرنا نا انصافی کے مترادف ہوگا۔ طراز ظہیریؔ یا ’داستان غدر‘ اردو نثر میں ایک وقیع اضافہ ہے۔