ایران کے جانباز صدر، ابراہیم ریٔسی نے پڑوسی ملک آذربایٔجان میں ایک ڈیام کے افتتاح کے وقت اپنی غیر متوقع وفات سے چند گھنٹے قبل یہ ذریں الفاظ کہے تھے کہ،’فلسطین ،عالم اسلام کا پہلا مسٔلہ ہے‘۔ اس جملہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ فلسطین کا درد ان کے خون میں رچا ہوا تھا۔ یہ الفاظ موجودہ دور کے اسلامی ممالک کے لیڈروں کی زبان سے شاید ہی کسی نے سنا ہوگا۔ایسی ہونہار شخصیت کا اچانک ایک فضایٔی حادثہ میں رخصت ہوجانا عالم اسلام کے لئے ایک بہت ہی نا قابل فراموش سانحہ اور خلا ہے جس کا عنقریب پر ہونا مشکل نظر آتا ہے۔
ابرا ہیم رایٔسی اپنی پندرہ سالہ عمر میں ایک مدرسہ سے اپنی تعلیم کا آغاز کر رہے تھے کہ اسی دوران اس وقت کے صدر رضا شاہ پہلوی کے خلاف بغاوت میں شامل ہوکر بہت ہی کم عمری میں اپنے اسلامی جذبہ کا ثبوت دیدیا تھا۔ پھر شاہد موتاہاری یونیورسٹی،تہران سے وکالت میں اعلی سند حاصل کرنے کے بعد مختلف مراحل سے گزرتے ہوے ٔ ایران کی اعلی عدالت کے چیف جسٹس کے عہدہ پر کئی سال تک فایٔز ر ہے۔پھراگست 2021 میں ایران کے آٹھویں صدر کے اعلی عہدہ پر ان کا انتخاب ہوا ۔اپنی پندرہ سالہ عمر میں ابتدایٔی تعلیم سے لیکر وفات تک انہوں نے اپنی زندگی میں کیٔی نشیب و فراز دیکھے، کئی سرکاری اعلی عہدوں سے اور کییٔ ناگریز الزامات سے بھی مامور رہے، مگر بحیثیت ایک ایرانی صدر عالم اسلام کے لئے بالخصوص دو وجوہات سے ایک انمول شخصیت ثابت ہوے ٔ۔
تقریباً ایک صدی سے مظلوم فلسطینی اپنے آبا و اجداد کے گھروں سے دربدر ہوکر بیروت کے مضافات کےر یفیوجی کیمپس میں جس کسمپرسی کے عالم میں جی رہے ہیں اور جو باقی اپنی زمین پر رہ گئے وہ اسرا ئیل کے جس نوعیت کے قبضہ میں ظلم و جبر کی زندگی گزاررہے ہیں ان کا اور ان کے تحفظ کا حل کویٔی اسلامی ملک اب تک نکال نہ سکا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ کیٔی اسلامی ممالک نے کچھ جنگوں اور جھڑپوں کے ذریعہ کوشش بھی کی مگر اسرایئل کی طاقت اور جارحیت کے آگے بے بس رہے۔ مگرابراہیم رئسی کی دور اندیشی نے اس کی وجہ سمجھ لی اور آ خر دم تک اس جد و جہد میں مصروف رہے۔ انہوں نے اپنے ملک کو اور اپنے وفادار اتحادیوں کو اسلاحات اور دیگر ذریعوں سے مظبوط بناتے رہے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ تقریبا ًایک سال سے اسرائیل کو بے بس اور زبردست طریقہ سے مقابلہ کرتے رہے اور اب جب کہ فلسطین کی فتح عنقریب تھی، حیرت انگیز طریقہ سے ان کی وفات ہو گئی۔
اسرائیل کے آگے اسلامی ممالک کی کئی دہائیوں سے بے بسی کی وجہ ابراہیم ریٔسی نے یہ بھی جان لی کہ یہ اسلامی ممالک آپس کی نا اتفاقی کی وجہ سے شکست کھا رہے ہیں۔ حال ہی میں وہ اور ان کے وزیر خارجہ، امیر عبداللہ نے اس محاذ پر بھی اپنی جد و جہد کا آ غاز کیا تھا اور مختلف اسلامی ممالک جیسے ترکی، مصر، سعودی عریبیہ،پاکستان اور کچھ دوسرے ممالک کا دورہ کر کے آپس کے اتحاد کی اہمیت کا اظہار کرتے رہے اور اس ضمن میں کافی کامیابی بھی حاصل ہوتی رہی، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج بہت سے اسلامی ممالک ایک دوسرے کے قریب آگۓ اور ایک نئے شانداردور کا آغاز ہو گیا۔ آذربیجان کا دورہ بھی اسی حسرت ناک کڑی کا ایک سلسلہ تھا ۔ اب وقت ہے کہ دوسرے طاقتور اسلامی ممالک اپنے اندرونی سیاسی اور سماجی معاملات کو جلد از جلد ختم کرکے ابراہیم ریٔسی کے ان دو خواب کی تکمیل کریں ورنہ اب کسی قسم کی لاپرواہی یا کوتاہی عالم اسلام کو پھر سے ایک صدی پشت لے جاے ٔ گی ۔ یہ ذمہ داری مختص بالخصوص ان نام نہاد اسلامی بین الاقوامی تنظیمیں جیسے کہ آرگنایٔزیشن آف اسلامک کوآپریشن،عرب لیگ،گلف کارپوریشن کاؤنسل اور ورلڈ مسلم لیگ کی ہے کہ وہ اب کسی قسم کی تاخیر کے بغیر ایک نیا سلطان صلاح ا لدین ایوبی تیار کر کے مسجد اقصی کو اسر ائیل کے قبضہ سے آزاد کرو اکر ابراہیم ریٔسی کے ایک اور دیرینہ خواب کی تکمیل کریں ۔
ڈاکٹر ریاض اللہ
syedaafakh10@gmail.com
ڈاکٹر انیس صدیقی کی اطلاع کے بہ موجب حمید الماس کے فرزند اصغر جناب بلہار اظہر احمد کا انتقال ،بہ عمر 62 سال، 28جولائی 2024 صبح کی اولین ساعتوں میں نیوزی لینڈ کے شہر آکلینڈ میں ہوا اور شام میں آکلینڈ ہی کے مانوکاو میموریل گارڈنس کے قبرستان میں تدفین عمل میں آئی۔
مرحوم کی ابتدائی تعلیم گلبرگہ میں ہوئی۔بنگلور میں ڈپلوما کرنے کے بعد وہیں BEML اورL&T میں ملازمت اختیار کی۔2002 میں معہ خاندان نیوزی لینڈ منتقل ہوئے۔مرحوم نہایت دوست دار، خوش وضع اور خوش مزاج انسان تھے۔تواضع اور صلہ رحمی ان کی شخصیت کا خاصہ تھی.
مرحوم کو اسپورٹس میں بہت دلچسپی تھی۔L&T میں ملازمت کے دوران وہ L&T Sports and Fine Arts Clubکے سیکرٹری رہے اور کھیل کود کے ٹورنمنٹس کے ساتھ ساتھ گونا گوں ثقافتی سرگرمیوں کا اہتمام بھی کیا۔وہ اپنی خوش مزاجی اور ملنسار طبعیت کی وجہ سے اپنےساتھیوں میں بہت مقبول تھے۔
مرحوم کے پسماندگان میں بیوی انیسہ، بیٹا آصف اسرار اور بیٹی ثانیہ بلہار کے علاوہ برادران جناب ملنسار اطہر احمد سابق اسٹیشن ڈائریکٹر، آل انڈیا ریڈیو، جناب ملہار قیصر احمد موظف اسوسی یٹ پروفیسر ہیں۔اللہ رب العالمین ان کی مغفرت فرمائے، کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے اور پسماندگان اور لواحقین کو صبر جمیل سے نوازے۔ بلہار اظہر احمد کی رحلت پر عزیز اللہ بیگ، عسکرواسطی اور خلیل احمد نے تعزیت کا اظہار کیا ہے ۔
ادارہ قرطاس و قلم، جگتدل کے زیر اہتمام ایک تعزیتی نشست معروف طنز و مزاح نگار قیوم بدر (مرحوم) کی یاد میں بروز سنیچر بمطابق 8/ جون 2024ء جگتدل پرانی مسجد گلی نمبر 5، بمقام ”لطیف منزل“ جناب جاوید لطیفی کی میزبانی میں منعقد کی گئی۔ صدارت حاجی عبدالودود انصاری(سابق پرنسپل) نے کی اور نظامت جناب سمیع الفت نے خوب کی۔مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے جاوید اقبال ابن قیوم بدر رہے۔ مخصوص تعزیتی مجلس کا آغاز مولانا محمد کلام حسین جامعی(خطیب و امام جگتدل پرانی مسجد) نے تلاوتِ قران مجید سے کیا مزید دعائے معفرت بھی کی۔ معروف شاعر و ادیب نسیم اشک نے کہا کہ فنکار کبھی مرتا نہیں وہ اپنی تخلیقات کی وجہ سے زندہ رہتا ہے۔ معروف قلمکار سوز اختر نے کہا کہ قیوم بدر ادب کا نگینہ تھے۔ جانے والے کبھی نہیں آتے۔ جانے والوں کی یاد آتی ہے۔ ڈاکٹر علی حسین شائق نے کہا قیوم بدر اپنے فن میں یکتا تھے۔ بنگال ادب کے ادباء کی فہرست ان کے بغیر نامکمل مانی جائے گی۔ ڈاکٹر شائق نے واضح کیا کہ قیوم بدر نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز افسانہ نگاری سے کیا تھا۔ نیز اعلان کیا کہ رسالہ ”زنبیلِ ادب“ کا اگلا شمارہ قیوم بدر نمبر ہو گا۔ لہذا بلا جھجھک کوئی بھی قلمکار قیوم بدر پر اپنی تخلیقات (منظوم یا منثور) ارسال کر سکتا ہے۔ نوجوان قلم کار نیز کولکاتہ میونسپل کارپوریشن پرائمری اسکول کے اسسٹنٹ ہیڈ ٹیچر سہیل نور نے خراج عقیدت و تعزیت پیش کرتے ہوئے زیرِ نظر قطعہ بھی پڑھا:
موت ہوتی ہے لینے والوں کی ہم زمانے کو صرف دیا کرتے ہیں ہم ہیں فنکار ہم نہیں مرتے ہم کتابوں میں سانس لیا کرتے ہیں جواں سال استاذ و قلمکار آر احمد نے کہا کہ پچھڑے علاقے میں سادگی کے ساتھ رہتے ہوئے بھی قیوم بدر نے علاقے کا نام روشن کیا۔ خوش گلو اور خوب رو شاعر احمد خورشید نے چند اشعار اسی ضمن میں پیش کیے اور کہا کہ قیوم بدر اپنی فنی خدمات و تخلیقات کے بِنا پر ہمیشہ یاد کیے جاتے رہیں گے۔ صدرِ ادارہ محترم عظیم انصاری نے کہا قیوم بدر صرف میرا ہم جماعت یا ہم عصر ہی نہیں بلکہ دیرینہ دوست بھی تھا۔ اللہ کے کرم سے میں نے اس کی آخری سانس تک اس رشتے کا پاس رکھا اور اس کے گھر والوں کے ساتھ ہنوز جاری ہے۔ لواحقین اور پسماندگانِ قیوم بدر شروع تا حال اس کے معترف بھی ہیں۔ انھوں نے واضح کیا کہ قیوم بدر پر اولین مضمون اگر کسی کا ادبی منظر نامے پر آیا تو خاکسار کا ہی تھا جو سال 2007 میں اخبار مشرق میں شائع ہوا تھا۔ انھوں نے صاف گوئی کے ساتھ یہ بھی کہا کہ اس سادہ لوح طنز ومزاح نگار کو طنز و مزاح نگار کی عالمی فہرست میں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ خاکسار علی شاہد دلکش نے کہا کہ کسی شاعر کا ایک شعر یا کبھی کبھی ایک مصرع ہی اس کی مقبولیت کا سبب بن جاتا ہے۔ قیوم بدر کی کتاب کا نام نیز ان کے ایک مضمون کا عنوان ”ہم قبرستان سے بول رہے ہیں”، ان کی مقبولیت کا حامل ہے۔ اس بات کے شواہد کلکتے میں مغربی بنگال اردو اکیڈمی کے زیرِ انعقاد تقریب میں علامہ اقبال کے پوتے محترم ولید اقبال کی موجودگی والا ہال کے جم غفیر کے سامعین ہیں کہ جب ایوارڈ کے لیے ان کے نام کب اعلان کیا گیا تب مجمعے میں”ہم قبرستان سے بول رہے ہیں“ کی آواز نے بازگشت کی تھی۔ فرزند ِ قیوم بدر جناب جاوید اقبال نے کہا کہ میری جانکاری میں ابو کے نام پہ چوتھی شام ہے۔ممکن ہے ان کے نام اور کئی شامیں ان کی حیات میں بھی رہی ہوں گی۔ بتاتا چلوں کہ کیسے وہ بسترِ مرگ پر بھی اپنے تئیں کسی کے تاثرات اور پیغامات کو سن کر یا پڑھ کر اپنے خود کے پیروں کی مدد سے فرش پر کھڑا ہو جاتے تھے۔ انھوں نے منتظمین، شرکاء اور سامعین کا شکریہ بھی ادا کیا۔ جناب جاوید لطیفی نے اخیر میں اچھی اور مختصر گفتگو کے ساتھ اظہارِ تشکرات کیا۔ صدرِ نشست حاجی عبد الودود انصاری نے کہا کہ الحمد اللہ جس طرح سے آج ادبی گفتگو کے ساتھ دینی گفتگو بھی شامل ِ نشست رہی۔ اس سے آج کی مجلس دینی زیادہ اور ادبی کم رہی۔ قیوم بدر ایک شریف النفس اور خود دار فن کار تھے۔ انھوں نے ایک ادبی صنف سے اپنے علاقے کی نسبت قائم کی۔ اس صنف کے حوالے سے جب بھی بات ہو گی ان کے نام کے ساتھ علاقے کی نسبت بھی رہے گی۔ آئیے دعا کریں کہ اللہ مرحوم کو غریق رحمت کرے آمین۔ شرکاء میں مولانا محمد کلام حسین جامعی، حاجی عبدالودود انصاری، عظیم انصاری، حاجی علی حسین شائق، سوز اختر، سمیع الفت، احمد خورشید، نسیم اشک، سہیل نور، محمد نسیم، محمد جاوید اقبال انصاری، جاوید اقبال، مہوش جمیل اور رئیس احمد کے اسم گرامی ہیں۔
یہ اطلاع نہایت مسرت کے ساتھ دی جاتی ہے کہ شہر آمبور میں ٹی۔عبد الواحد چیریٹیبل فائونڈیشن کے زیر اہتمام ٹی۔اے۔ڈبلیو ویمنس کالج کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔ اس کالج میں سالِ رواں ((2024-25کے لیے داخلے کا آغاز ہوچکا ہے۔ یہاں پر لڑکیوں کی نفسیات کا خیال رکھتے ہوئے بہترین ماحول فراہم کیا گیا ہے۔ شہر آمبور میں ایک مدت سے لڑکیوں کے لیے ویمنس کالج کی ضرورت محسوس کی جارہی تھی۔ اس ضروت کو محسوس کرتے ہوئے مینیجنگ ٹرسٹی الحاج جناب ٹی۔رفیق احمد صاحب نے یہ قابل تحسین اقدام اٹھایا ہے تاکہ ہماری قوم کی لڑکیوں کو اعلی تعلیم کی سہولتیں فراہم کی جائیں۔ یہاں تمل زبان کے علاوہ بطور مادری زبان لڑکیوں کو اردو زبان پڑھنے کی سہولت بھی فراہم کی گئی ہے۔ قابل اساتذہ کا تقرر بھی عمل میں آچکا ہے۔
شہر آمبور اور اس کے قرب و جوار میں رہنے والے والدین سے درخواست کی جاتی ہے کہ وہ اپنی لڑکیوں کو اس کالج میں داخلہ دلوا کر انھیں اعلی تعلیم سے آراستہ کریں۔ لڑکیوں کے لیے آمد و رفت کا خیال رکھتے ہوئے کالج کی انتظامیہ کی طرف سے کالج بس کا انتظام کیا گیا ہے۔ ان شاء اللہ اگلے سال سے دور دراز علاقوں سے آنے والی لڑکیوں کے لیے ہاسٹل کی سہولت بھی فراہم کی جائے گی۔ اس زرین موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے والدین اپنی لڑکیوں کو اس کالج میں داخلہ دلوائیں۔داخلہ فارم پرنسپل کے دفتر سے حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ اس کالج میں امسال درج ذیل کورسس کو منظوری دی گئی ہے۔ ان شاء اللہ اگلے سال سے طالبات کے ذوق و شوق کا خیال رکھتے ہوئے مزید نئے کورسس شروع کیے جائیں گے۔
۱۔ بی۔کام (جنرل) ۲۔ بی۔ایس۔سی (نفسیات) ۳۔بی۔ایس۔سی (کمپیوٹر سائنس)
۴۔بی۔ایس۔سی (انٹیریر ڈیزائن اینڈ ڈیکور) ۵۔ بی۔سی۔اے تمل اور اردو بطور مادری زبان پڑھائی جائے گی۔
پروفیسر عائشہ صدیقہ۔ جے
شعبہ اردو، ٹی۔اے۔ڈبلیو ویمنس کالج، آمبور